افغانستان ایک بار پھر بحران کی زد میں ہے کیونکہ طالبان نے دو دہائیوں کی پرتشدد لڑائی کے بعد اتوار کو دارالحکومت کابل پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔
عسکریت پسندوں نے ملک کو ’اسلامی امارات‘ قرار دے دیا ہے جبکہ ہزاروں افراد نے شہر چھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ صدر اشرف غنی نے عجلت میں صدارتی محل چھوڑا اور فرار ہو گئے۔
2001 میں طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی تھی لیکن امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہ آخری مہینوں میں نئے علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے ملک بھر میں پھیل گئے۔ اب افغانستان موثر انداز میں اسلامی گروپ کی عمل داری میں ہے کیونکہ انہوں نے تمام بڑے شہروں اور ملک کے زیادہ تر حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ نے اس بات کا کھوج لگایا ہے کہ دہشت گرد گروپ کو فنڈ کیسے ملتے ہیں اور کون انہیں ہتھیار فراہم کرتا ہے۔
انہیں فنڈ کیسے ملتا ہے؟
افغانستان افیون برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسلامی گروپ کو حاصل ہونے والی زیادہ تر رقم کا یہی ذریعہ ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے ڈرگز اینڈ کرائم (یو این او ڈی سی) کے کابل آفس کے سربراہ سیزرگڈز نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’طالبان نے افغانستان کی افیون کی تجارت پر انحصار کیا ہے جو ان کی آمدن کا اہم ذریعہ ہے۔ زیادہ پیداوار کے نتیجے میں منشیات سستی اور قیمت کے اعتبار سے زیادہ پرکشش ہوتی ہیں اس لیے زیادہ بڑے پیمانے پر دستیاب ہوتی ہیں۔‘
اس سے پہلے 2000 میں طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی تھی لیکن یہ سمجھا گیا کہ دیہی علاقوں کے کاشت کاروں کے ردعمل کے نتیجے میں ان کے مؤقف میں خاصی نرمی آئی۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ طالبان سرکاری حکام کے ساتھ مل کرطویل عرصے سے منشیات کی تجارت کر رہے ہیں لیکن اس بارے میں اختلاف ہے کہ دراصل طالبان منشیات سے کتنی رقم حاصل کرتے ہیں۔
نیٹو کی تیار کردہ ایک خفیہ رپورٹ سے جو بعد میں ریڈیو فرانس / ریڈیو لبرٹی کو افشا کر دی گئی تھی ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کان کنی، ریئل سٹیٹ کے کاروبار اور علاقے کے گمنام افراد سے بھی رقوم حاصل کرتے ہیں۔
صحافی لِن اوڈونیل نے گذشتہ سال ایک رپورٹ لکھی تھی جس میں خبر دار کیا گیا کہ ’جب تک عالمی سطح پر کارروائی نہیں کی جاتی طالبان بہت امیر تنظیم رہے گی جس کے پاس اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے رقوم حاصل کرنے کا ذریعہ موجود ہے اورعلاقائی ممالک سے بیرونی امداد بھی مل رہی ہے۔‘
ملک کے وہ حصے جو طالبان کے زیر انتظام ہیں انہوں نے ایک طرح کا ٹیکس عائد کر رکھا ہے جسے’عشر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2012 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ ٹیکس زرعی پیداوار کا 10 فیصد اور دولت کا 2.5 فیصد ہوتا ہے۔
طالبان کو ہتھیار کون فراہم کرتا ہے؟
جیسا کہ طالبان افغانستان بھر میں پھیل چکے ہیں انہوں نے وہ ہتھیار چوری کیے جو امریکہ نے افغان فوج اور پولیس کو دیے تھے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی میں افغانستان کے ماہر رابرٹ کروز نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا: ’نئے علاقے میں جاتے ہوئے سب سے پہلے کیے گئے اقدامات میں سے ایک طالبان کا حکومتی ہیڈکوارٹرز میں داخل ہونا، وہاں لوگوں کو گرفتار یا قتل کرنا، جیلیں کھولنا اور اس کے بعد سرکاری اڈوں میں جانا اور ہتھیاروں پر قبضہ کرنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کے پاس وہ ہتھیار اور آلات بھی ہیں جو انہیں ان دوسرے گروہوں یا ریاستوں نے عطیہ کیے جو کسی نہ کسی طرح ان کے مقصد سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
اس سے پہلے 2018 میں امریکہ نے روس پر الزام لگایا کہ وہ طالبان کو مدد اور ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں جنرل جان نکلسن نے دعوی کیا کہ بندوقیں ہمسایہ ملک تاجکستان سے سرحد کے ذریعے سمگل کر کے لائی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس اس ہیڈکوارٹرز میں لائے گئے اور افغان رہنماؤں کی طرف سے ہمیں دیے گئے ہتھیار موجود ہیں اور (انہوں) نے کہا کہ یہ روسیوں کی طرف سے طالبان کو دیے گئے۔‘
روس اور طالبان دونوں نے امریکی دعووں کی تردید کی۔
اس رپورٹ کی تیاری میں خبر رساں اداروں سے اضافی مدد لی گئی ہے۔
© The Independent