افغانستان میں دو روز قبل طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے اب تک نئی حکومت ناپید ہے۔ طالبان نے شہر اقتدار پر قبضہ تو کر لیا ہے لیکن نئی حکومت کا اعلان اب تک نہیں کیا ہے۔
سب کو بےچینی سے انتظار ہے کہ طالبان کیسی نئی حکومت بنا پاتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ طالبان کے ایک اہم رہنما امیر خان متقی کابل پہنچے ہیں اور مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان میں رابطہ کمیٹی کے اراکین شامل ہیں یعنی سابق صدر حامد کرزئی، مصالحتی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ، مشرانو جرگہ کے چیئرمین عبدالہادی مسلم یار اور حزب اسلامی افغانستان کے رہنما گلبدین حکمت یار سے ملاتوں کی اطلاعات ہیں۔ تاہم ابھی طالبان نے ان خبروں کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
اس کی بڑی وجہ دنیا کے میڈیا کی اچانک ضروریات میں اضافے کی وجہ سے طالبان ترجمانوں کا تقریبا غائب ہو جانا ہے۔ محض بڑے ایک دو چینلوں کے علاوہ وہ نہ کہیں دکھائی دے رہے ہیں اور نہ کسی کے پیغام کا جواب دے رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ طالبان کی کوشش فی الحال ہے کہ دیگر افغان سیاسی قوتوں کو نئی حکومت میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ عمل کب تک مکمل ہوتا ہے۔ دیگر سیاسی قوتوں کو شامل کرنے کی ایک بڑی وجہ بین الاقوامی دباؤ بھی ہے۔ طالبان پر امریکہ اور چند دیگر ممالک نے واضح کر دیا تھا کہ وہ ایسی کسی نئی افغان حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے جس میں دیگر افغان دھڑے یا گروپ بھی شامل نہ ہوں۔
کابل میں حالات معمول کی جانب
گذشتہ دو دن سے کابل کے حالات قدرے معمول پر آ رہے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک کم ہے لیکن دکانیں اور بازار کھل رہے ہیں۔ طالبان کے رہنما مقامی ٹی وی پر آ کر لوگوں کو بھاگنے یا ڈرنے سے منع کر رہے ہیں۔ ایک اہلکار مولوی عبدالحق حماد نے کابل کے شہریوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہر میں طالبان حکام جلد اخباری کانفرنس میں نئے انتظامات کے بارے میں وضاحت کریں گے۔ کابل میں بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں پر رش کی وجہ سے کیش ختم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو روزانہ استعمال کی اشیا خریدنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
افغان خواتین کے لیے ایک مثبت پیش رفت مقامی افغان ٹی وی چینلز پر خواتین میزبانوں کی واپسی بھی ہے جس سے یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ طالبان ان کے ٹی وی پر آنے یا دفاتر میں کام پر کوئی پابندی نہیں لگانا چاہتے ہیں۔ لیکن بعض مغربی اخبارات کے مطابق طالبان نے عورتوں کے گھر سے کسی محرم کے بغیر نکلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کی طالبان سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
طالبان نے فی الحال کابل کے سابق حکومت کے میر اور وزارت صحت کے سربراہ کو اپنے سرکاری فرائض بدستور سرانجام دینے کی ہدایت کی ہے۔
چلتے چلتے یہ خبر بھی کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے تصدیق کی ہے کہ سابق نائب امیر فقیر محمد بھی کابل میں رہائی پانے والے قیدیوں میں شامل تھے۔