سنجے دت عام طور پر بمبئی کے پسماندہ علاقے کولی واڑہ کا رخ کرتے تھے، یہ علاقہ خاصا پیچیدہ تھا، جہاں ماہی گیر بھی رہتے تھے اور ڈرگ سمگلرز بھی، جن سے سنجے دت اپنی ’ضروریات‘ پوری کرتے۔
اس علاقے میں آتے جاتے انہیں ایک خواجہ سرا ضرور نظر آتا، جس کے آگے پیچھے چار پانچ افراد ہوتے۔ اس خواجہ سرا کے چہرے پر ایسی دہشت ہوتی کہ راہ گیر اس سے کتراتے۔
سنجے دت کو احساس ہوا کہ یہ اس علاقے کا کوئی دادا ہے، جس کی آمد ہوتے ہی ہر جانب خوف کی فضا ہوجاتی۔ پتہ نہیں کیا بات تھی کہ سنجے دت کے ذہن کے کسی کونے میں یہ خواجہ سرا نقش ہو کر رہ گیا تھا۔
ذکر ہو رہا ہے 1991کے ابتدائی مہینوں کا، جب ہدایت کار مہیش بھٹ نے سنجے دت کو نئی فلم میں شامل کرنے کی پیش کش کی تو ان کے پاس انکار کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ کیونکہ مہیش بھٹ نے ان کے ڈوبتے ہوئے کیریئر کو پھر سے اس وقت ابھارا تھا، جب انہوں نے ان کی سپر ہٹ فلم ’نام‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
مہیش بھٹ نے بتایا کہ ان کی یہ فلم ’سڑک‘ ہالی وڈ کی تخلیق ’ٹیکسی ڈرائیور‘ سے متاثر ہو کر بنائی جارہی ہے، جس میں رابرٹ ڈی نیرو اور جوڈی فاسٹر تھے اور جسے روایتی بالی وڈ فلموں کی طرح 12 مصالحے کی چاٹ اور ایکشن کے ساتھ ندیم شروان کے گیتوں سے سجایا جارہا ہے۔
بظاہر تو یہ ایک ہیرو اور ولن کی عام سی فلم کی کہانی ہی لگ رہی تھی، جس میں ریڈ لائٹ ایریا میں مجبوری کے عالم میں رہنے والی ہیروئن جب ہیرو کے عشق میں گرفتار ہوتی ہے تو پیروں میں پڑی ہر زنجیر کی قید سے آزادی چاہتی ہے، تو پھر شروع ہوتی ہے پیار کو پانے کی وہ خونخوار جنگ، جس کے ہر موڑ پر زندگی اور موت مقابل ہوتے ہیں۔
سنجے دت نے ایک روز ولن کی تلاش میں پریشان مہیش بھٹ کو آئیڈیا دیا کہ کیوں نہ اس فلم میں منفی کردار ادا کرنے والے ولن کو خواجہ سرا کے روپ میں پیش کیا جائے۔ مہیش بھٹ نے چونک کر سنجے دت کو دیکھا کیونکہ آئیڈیا برا نہیں تھا۔
اب سنجے دت نے پھر انہیں اس خواجہ سرا کا بتایا جو انہیں کولی واڑہ میں ملتا تھا، جس کے رنگ ڈھنگ ایسے تھے کہ خوف سے ہر کسی کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
مہیش بھٹ کو سنجے دت کا ولن کو یوں پیش کرنے کا آئیڈیا بہترین لگا، کیونکہ اب تک فلموں میں ایسا تجربہ ہوا ہی نہیں تھا۔
ایک ایسا خواجہ سرا جو جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے، خواجہ سرا ہونے کے باوجود کوئی بھی اس کے قہر سے بچتا نہیں، جس کے پاس رحم نام کی کوئی چیز نہیں۔
یہ بالکل اچھوتا اور منفرد کردار تھا جو خواتین کی طرح بناؤسنگھار کرتا اور جب کسی کا خون کا پیاسا ہوتا ہے تو زندگی برباد کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ یہ سنجے دت ہی تھے جنہوں نے اس کردار کو ’مہارانی‘ کا نام دیا۔
ہدایت کار مہیش بھٹ نے تلاش شروع کی، ایسے اداکار کی جو اس کردار کے ساتھ انصاف کرسکے، ابتدا میں شرد سکسینا کے نام پر غور ہوا لیکن مہیش بھٹ مطمئن نہیں تھے، ایسے میں ان کے ذہن میں سداشیو امرپورکر آئے، جنہوں نے اپنی پہلی ہی ہندی زبان کی فلم ’اردھ ستیہ‘ میں معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ جیتا تھا۔
مہیش بھٹ کو محسوس ہوا کہ سداشیو امرپورکر ہی اس کردار میں حقیقت کا رنگ بھرسکتے ہیں۔
سداشیو امرپورکر کو جب ’سڑک‘ کی پیش کش ہوئی تو پونے کی یونیورسٹی سے تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والے اس فنکار نے مہیش بھٹ کو ’ناں‘ نہیں کی۔
کالج اور یونیورسٹی میں تھئیٹر سے منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ کرکٹ بھی اچھا کھیلتے تھے لیکن جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد انہوں نے خود کو تھئیٹر اور فلموں سے منسلک کرلیا۔ مراٹھی زبان کے کئی کھیل اور فلموں میں آکر خود کو منواچکے تھے اور ہدایت کار گووند نہلانی کی ’اردھ ستیہ‘ ان کا ابتدائی تعارف بنا، جس نے ان پر ہندی زبان کی اور فلموں کی راہ ہموار کی تھی۔
سداشیو امرپورکر کے لیے ’سڑک‘ کا ’مہارانی‘ کا یہ کردار اس لیے بھی مشکل نہیں تھا کیونکہ کالج کے ایک سٹیج ڈرامے میں وہ کم و بیش ایسا ہی خواجہ سرا کا کردار ادا کرچکے تھے۔ اسی لیے اس روپ میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے ماضی کے تمام تر تجربات کو ذہن میں رکھا۔
مگر یہ کردار اس اعتبار سے بھی مختلف تھا کیونکہ اس میں جہاں کردار نگاری کی بھرپور گنجائش تھی، وہیں فلم نگری میں اپنی دھاک بٹھانے کی بھی۔ فلم ’سڑک‘ کی عکس بندی شروع ہوئی تو مہیش بھٹ کو احساس ہوا کہ سداشیو امرپورکر کا انتخاب کرکے واقعی انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی۔
سنجے دت اور پوجا بھٹ کی یہ فلم جب تکمیل کے مراحل سے گزر کر 20 دسمبر، 1991 کو سنیما گھروں میں پہنچی تو اپنے گیتوں، کہانی، ایکشن اور ہدایت کاری کی وجہ سے اس سال نمائش پذیر ہونے والی ساجن، سوداگر، ہم اور پھول اور کانٹے کے بعد پانچویں ہٹ فلم تھی۔
عام طور پر اب تک فلم بین گبر سنگھ، شاکا اور موگابو جیسے ولن دیکھ چکے تھے، ان کے لیے ’سڑک‘ کی ’مہارانی‘ چونکا دینے والا اضافہ تھی۔
یہ کمال سداشیو امرپورکر کا ہی ہے، جنہوں نے ولن کے اس کردار میں اپنی زندگی کا تمام تر نچوڑ لگا دیا۔
وہ جب جب سکرین پر آتے، فلم بین ان کی دہشت سے کانپ اٹھتے، ان کے مکالمات کی ادائیگی ایسی تھی کہ جس نے فلم بینوں کو سہما دیا ۔ یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ فلم میں زیادہ تر انہوں نے عام ولن کی طرح خود خون کی ندیاں نہیں بہائیں لیکن نجانے ان کے کپکپی طاری کرتے انداز میں کیا بات تھی کہ وہ ہر منظر میں چھا سے گئے۔
ان کا نسوانی انداز تو ایک طرف لیکن مکالمات میں ایسی چھبن، کاٹ، نفرت اور زہریلا انداز ہوتا کہ ہر جملہ پراثر بن گیا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ سنجے دت جیسے پاور فل ایکٹر کی موجودگی میں سداشیو امرپورکر ہر منظر میں ان پر بھاری رہے۔
سداشیو امرپورکر کی اسی جاندار اور غیر معمولی اداکاری کا اثر تھا کہ فلم فیئر ایوارڈ کے منتظمین مجبور ہوئے کہ اگلے برس اپنی کیٹگری میں ’بہترین ولن‘ کا اضافہ بھی کریں اور یقینی طور پر اس کے پہلے حقدار کوئی اور نہیں ’سڑک‘ کے لیے سداشیو امرپورکر ہی تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہاں گبر سنگھ، موگابو اور شاکا ہمیشہ کے لیے امر ہوئے، وہیں ’مہارانی‘ کا کردار بھی اس صف میں آکھڑا ہوا۔ اسی کردار کی مقبولیت کو کیش کراتے ہوئے مہیش بھٹ نے 1993 میں فلم ’تڑی پار‘ میں ’مہارانی‘ کو متھن چکرورتی کے خواب میں بطور مہمان اداکار پیش کیا۔
2000 میں تامل زبان میں ’سڑک‘ کا ری میک ’اپو‘ بنایا گیا تو پرکاش راج ’مہارانی‘ بن کر پردہ سیمیں پر آئے۔
سداشیو امرپورکر نے بعد میں ہر قسم کے کردار ادا کیے، ان میں منفی، مثبت اور مزاحیہ نمایاں رہے۔ فلم ’عشق‘ میں بہترین ولن کے لیے ایک بار پھر ان کی فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزدگی ہوئی لیکن ایوارڈ کاجل کو ’گپت‘ کے لیے ملا۔
بے شمار فلموں میں آنے والے سداشیو امرپورکر تین مئی، 2014 کو خاموشی سے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ’مہارانی‘ کا نفرت سے بھرا ولن والا کردار ہی تھا جس نے ’سڑک‘ کو کامیاب بنایا۔
یہی وجہ ہے کہ جب حال ہی میں ’سڑک 2‘ ریلیز ہوئی تو سب کو اگر کمی محسوس ہوئی تو صرف اور صرف ’مہارانی‘ کی۔
آج بھی سداشیو امرپورکر کو ان کے اصل نام کی بجائے ’ مہارانی‘ کے طور پر زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔