عائشہ اظہار دفتر میں بلا جھجھک شوخ آئی لائنر اور گہری لپ سٹک لگائے رہتی ہیں، مگر چھٹی کے بعد گھر کے راستے میں ایک خوف انہیں گھیرے رکھتا ہے۔ وین سے اترنے سے پہلے ہی وہ اپنا میک اپ صاف کر لیتی ہیں اور دوپٹہ اور بھی زیادہ لپیٹ لیتی ہیں۔
ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وین سے گھر تک چل کر جانے کے راستے میں ان کا پہناوا یا حلیہ ہراسانی کی وجہ نہ بنے۔ اس کے باوجود بھی وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’دفتر محفوظ ہے، مگر باہر ایسا نہیں۔‘
پبلشنگ میں کام کرنے والی 27 سالہ عائشہ بتاتی ہیں کہ راستے میں ایک نجی لیب کا گارڈ بیچ فٹ پاتھ میں بیٹھا ہوتا تھا اور آتی جاتی خواتین کو گھورتا۔ اس کے مسلح ہونے اور شکایت کی صورت میں انتقام کے ڈر سے عائشہ خاموشی سے اس کی نظریں برداشت کرتے وہاں سے گزر جایا کرتیں۔ لیکن ایک دن تنگ آ کر انہوں نے لیب کو شکایت کر کے اس کی جگہ بدلوائی۔
آنکھیں جھکا کر چلنا، کسی سے نظریں نہ ملانا، اپنی چال، کپٹروں اور رویے کا ہر سیکنڈ جائزہ لیتے رہنا اور ہزاروں کی بھیٹر میں بھی اکیلے اور غیر محفوظ محسوس کرنا۔ ہر لمحے اس پریشانی میں چلنا کہ کوئی آپ کو غلط طرح سے ہاتھ نہ لگا دے یا گھر تک پیچھا نہ کرے یا حملہ نہ کردے۔ یہ وہ احساسات ہیں جو عائشہ کی طرح پاکستان کی لاکھوں خواتین عوامی جگہوں میں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا سفر کرتے روزانہ اپنے اندر سمیٹے ہوئے چلتی ہیں۔
عوامی جگہوں پر ہونے والے ہراسانی کے واقعات خواتین آئے دن زیادہ تر خاموشی سے برداشت کر لیتی ہیں اور ہمیں ان کی خبر تک نہیں ہوتی، مگر یوم آزادی کو لاہور کے ایک پارک میں ایک خاتون کے ساتھ چار سو سے زائد مردوں کے ہجوم کی بداخلاقی کے واقعے کے بعد جہاں ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی آوازین بلند ہیں وہیں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ آخر خواتین ہماری عوامی جگہوں پر کتنا غیر محفوظ ہیں، کیا کچھ برداشت کرتی ہیں اور ان کی نقل و حرکت کس طرح متاثر ہوتی ہے۔
عائشہ بتاتی ہیں کہ ہراسانی کے بہت سے واقعات ان کے ساتھ ہوئے ہیں مگر وہ گھر پر بتانے سے کتراتی ہیں۔ ’میں گھر آ کر نہیں بتاتی کیونکہ مجھے پتہ ہے اس سے میری ہی نقل و حرکت پر اثر پڑے گا۔ بھائی یا ابو چھوڑنے یا پک کرنے پر اصرار کریں گے اور میں کسی کو یہ تکلیف نہیں دینا چاہتی۔‘
عائشہ بتاتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل جب وہ کراچی یونیوسٹی میں پڑھاتی تھیں تو ایک دن یونیورسٹی کے اندر ہی کہیں جانے کے لیے رکشہ کروایا۔ ان کے مطابق رکشے والا انہیں کسی سنسان راستے پر لے گیا اور جب انہوں نے چیخنا شروع کیا تو دھمکانے لگا کہ چپ رہو۔ عائشہ کے بقول ایک جگہ سے گزرتے ہوئے کچھ مرد کھڑے تھے تو انہوں نے چلانا شروع کیا، جس پر رکشے والا رک گیا اور وہ بھاگ کر محفوظ جگہ چلی گئیں۔
اس واقعے سے عائشہ اتنا ڈر گئیں کہ اپنے ساتھ اپنے دفاع کے لیے دو چھریاں رکھنا شروع کردیں۔
پاکستان میں ممکنہ طور پر ہر خاتون کے پاس ہراسانی اور عوامی جگہ پر غیر محفوظ ہونے کی کوئی کہانی ضرور ہوگی۔ اگر کبھی آپ کسی خاتون سے اس پر سوال کریں گے تو یقیناً آپ کو ایسے ایسے واقعات سننے کو ملیں گے کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔
راولپنڈی کی رہائشی ام کلثوم 17 سال کی تھیں جب گلی، محلے اور بسوں میں مردوں کی گھورتی نظروں سے خود کو بچانے کے لیے انہوں نے عبایہ پہننا شروع کر دیا۔ ان کے حیران والد نے تو اسے دوستوں کو دیکھتے نئے فیشن کا شوق قرار دے کر اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا، لیکن صرف کلثوم اور شاید ان کی طرح اور خواتین ہی جانتی ہیں کہ یہ ریشمی کپٹرا انہیں گھر سے باہر نکلتے تحفظ کا تھوڑا بہت ہی سہی کچھ تو احساس دلا سکتا ہے۔
کلثوم بتاتی ہیں: ’میں تب کالج جاتی تھی۔ بس کے لیے ہمارے گھر سے نکلتے ہی ایک مارکیٹ سے گزرنا پڑتا تھا۔ وہاں قدم رکھتے ہی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ساری مارکیٹ ہی مجھے گھور رہا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ سب اپنا کام ہی کر رہے ہوں، لیکن کئی بار ایسا ہوا جب کبھی میرے پیچھے جملے کسے گئے تو کبھی فون نمبر کی پرچیاں پھینکی گئیں یا پیچھا کیا گیا۔‘
کلثوم اب 31 سال کی ہیں اور اسلام آباد میں میڈیا میں کام کرتی ہیں۔ اس مارکیٹ سے گزرنا انہیں سب سے مشکل کام لگتا تھا۔
انہوں نے عبایہ پہننا شروع تو کردیا لیکن وہ بھی انہیں مردوں کی ایکس رے کرتی نظروں اور ہراسانی سے نہ بچا سکا۔ ’مجھے یہ نہیں لگا کہ اس سے کوئی فرق پڑا، گھورنا اور اس طرح کے واقعات پھر بھی ہوتے رہے۔ لوگوں کو شاید زیادہ تجسس ہوجاتا ہے کہ پتہ نہیں اندر کیا ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں عبایہ کے بعد تو کبھی ایسا بھی ہوا کہ لڑکوں نے انہیں دوستی کی پیش کش بھی کی۔’وہ کہتے تھے کہ آپ نے عبایہ کیا ہے تو شریف سی اچھی سی لگتی ہیں تو مجھ سے دوستی کرلیں۔ بھائی میں نے عبایہ پہنا ہے، میں شریف لگتی ہوں، با پردہ ہوں تو پھر مجھ سے دوستی کیوں کرنی ہے؟ مجھے شریف ہی رہنے دیں۔‘
دس سال سے زائد عرصے میں پڑھائی اور پھر کیرئیر کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ کے روزانہ سفر نے ام کلثوم کو محتاط رہنے کے حوالے سے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ اب وہ ہراسانی کو بالکل برداشت نہیں کرتی، اگر کسی بس یا بازار میں کوئی انہیں کچھ کہتا ہے تو وہ وہیں اس کا سامنا کرتی ہیں اور ڈانٹ کر انہیں روکتی ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ نشانہ بنتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو سال پہلے ہی وہ شام کو دفتر سے گھر جا رہی تھیں کہ گلی میں اکیلے پا کر موٹرسائیکل پر سوار ایک مرد ان کو ہاتھ لگا کر فرار ہوگیا۔ کلثوم نے پتھر اٹھا کر بائیک والے کو مارا بھی اور اس کے پیچھے بھی بھاگیں لیکن وہ نکل چکا تھا۔
’میں گھر جا کر گھنٹوں روتی رہی۔ مجھے لگا کہ شاید میں بری خاتون ہوں یا میں نے ایسا کوئی اشارہ دیا کہ اس بندے نے ایسا کیا۔ میری بہن نے مجھے تسلی دی، مگر میں اس واقعے سے ذہنی طور پر اتنا پریشان ہوئی کہ دو دن تک گھر سے باہر نکلنے کا دل نہیں کیا۔‘
خواتین کے لیے ماحول محفوظ کیسے کیا جائے؟
جنسی ہراسانی کے واقعات تو ملک بھر میں ہی عام ہیں، تاہم حال ہی میں اسلام آباد پولیس نے جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے وفاقی دارالحکومت میں جینڈر پروٹیکشن یونٹ کے نام سے ایک مخصوص ٹیم قائم کی ہے جو خاص کر خواتین اور بچوں کے تحفظ پر کام کرتا ہے۔
مئی کے آخر میں لانچ ہونے والی ٹیم کو پہلے ایک ماہ میں 131 شکایات موصول ہوئی جن میں سے انہوں نے 46 حل بھی کی ۔ ان شکایات میں زیادہ تر گھریلو تشدد اور مار پیٹ کی شکایات تھیں مگر اب اس یونٹ کے بارے میں آگاہی زیادہ بڑھنے پر ہراسانی کی شکایات بھی مل رہی ہیں۔
ایک حالیہ شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے یونٹ کی انچارج اے ایس پی آمنہ بیگ نے بتایا کہ کچھ خواتین نے سیکٹر ایف سکس میں قائم یونٹ کے واک ان سینٹر پر شکایت کی ایک گاڑی ان کا پیچھا کر رہی ہے اور انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ یونٹ کے اہلکاروں نے پانچ منٹ میں ایکشن لیتے ہوئے گاڑی کا سراغ لگایا اور اس میں سوار افراد کو پکڑ لیا۔
اے ایس پی آمنہ بیگ کے مطابق اسلام آباد پولیس خواتین کے لیے عوامی جگہیں محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں رپورٹنگ کے لیے ہیلپ لائن کے ساتھ ساتھ واک ان سینٹر قائم کیا گیا ہے اور خواتین پولیس کے سائیکل سکواڈ بھی بنائے گئے ہیں جو پارکس اور سڑکوں جیسی جگہوں پر تعینات ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہم مثال قائم کریں کہ ہماری خواتین افسر پیٹرولنگ کر سکتی ہیں، وہ عوامی جگہوں کو استعمال کر سکتی ہیں آرام سے، تو اس سے دوسری خواتین کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ بھی ان کو استعمال کریں۔ اور جو پہلے ہی استعمال کر رہی ہیں وہ خواتین پولیس کو دیکھیں اور ان کو رپورٹنگ میں آسانی ہو۔ ‘
وہ کہتی ہیں معاشرے میں پولیس کا ایک منفی تاثر ہے اور مانا جاتا ہے کہ خواتین تھانے نہیں جا سکتیں، اسی تاثر کو ختم کرنے کے لیے خواتین کے لیے مخصوص سینٹر بنائے گئے ہیں جہاں عملہ بھی خواتین کا ہے جس سے انہیں کوئی بھی جرم یا شکایت رپورٹ کرنے میں آسانی محسوس ہو اور اس بات کا یقین ہو کہ انہیں انصاف تک رسائی ملے گی۔
اے ایس پی آمنہ بیگ نے کہا: ’ایک خاتون تب ہی محفوظ محسوس کر سکتی ہے جب اس کو یقین ہو کہ وہ کہیں جائے تو اس کے ساتھ ہراسانی یا کوئی اور چیز نہ ہو ، اور اگر ہو بھی جائے تو اس کے پاس طریقہ کار موجدو ہو جس کے ذریعے وہ ملزمان کو کہیں رپورٹ کر سکے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کے لیے دستیاب وسائل کے بارے میں آگاہی زیادہ ہوگی تو اس سے خواتین کو عوامی جگہوں میں تحفظ کا احساس بھی زیادہ ہوگا کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ کسی مسئلے کی صورت میں ان کی مدد کی جائے گی۔
اے ایس پی آمنہ بیگ نے جینڈر پروٹیشن یونٹ کا آغاز گذشتہ سال دسمبر میں راولپنڈی سے کیا، جس کے بعد وہ اسلام آباد میں بھی قائم ہوا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اب پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور فیصل آباد پولیس بھی ان سے رابطے میں ہے کہ اس ماڈل کو وہاں بھی لایا جا سکے۔
’مردوں سے بات کرنا ہوگی‘
ہراسانی کے واقعات اور ان کی بڑھتی رپورٹنگ سے عوامی جگہوں پر خواتین کے لیے خلا تنگ ہونا واضح ہوتا ہے جو 21ویں صدی میں بھی بڑھتی نظر نہیں آتی۔
پاکستان میں خواتین کی میڈیا میں نمائندگی پر نظر رکھنے والے ادارے عکس کی سربراہ تسنیم احمر کہتی ہیں کہ خواتین کی نقل و حرکت محدود سے محدود ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ہراسانی کے واقعات یا لڑکیوں کے اغوا کی خبروں کے بعد والدین اپنی بچیوں کے لیے خوف زدہ ہوتے ہیں اور انہیں سکول یا کام پر جانے سے روکتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان میں اس نظریے کو پھیلایا جا رہا ہے کہ لڑکیوں کو گھر بٹھا لیں گے تو وہ محفوظ ہوں گی، مگر خواتین وہاں بھی گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
ہراسانی کے گہرے گھاؤ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوامی جگہوں پر مسلسل ہراسانی کا نشانہ بننے والی لڑکیاں اور خواتین ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں، اپنی خوداعتمادی کھو دیتی ہیں، وہ خود کو بےیار و مددگار سمجھتی تھی اور انہیں خاتون ہونے پر اور اپنے جسم پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
تسنیم کہتی ہیں: ’آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ لڑکیوں کو گھر پر بٹھا لیں۔ آپ کو مردوں کو ٹھیک کرنا ہے۔ خواتین کی نقل و حرکت تب بہتر ہوگی جب مرد عورت کی عزت کریں گے۔ نہیں تو جس طرح بیانیہ بن رہا ہے اس سے تو لڑکیوں اور خواتین کے لیے خلا کم سے کم تر ہوتی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ میڈیا بھی متاثرہ خواتین کے کپڑوں، کردار یا حرکات پر سے توجہ ہٹا کر جرم کرنے والے پر دھیان دے کر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ان کے مطابق اس موضوع پر بات کرنا بہت ضرروی ہے، اپنے گرد پر طبقے کے لڑکوں کو اور مردوں کو سمجھانا ضروری ہے، والدین کا نوجوان بچوں کو سمجھانا ضروری ہے۔ ’جب تک ہم ہر سطح پر مردوں سے بات نہیں کریں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘