حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت گرانے کی کوشش کرنے کے لیے ایک ہو گئی ہیں اور ان کے خیال میں اگر اپوزیشن جماعتیں باہر نہ آئیں تو حالات سے تنگ عوام خود ہی سڑکوں پر آجائے گی۔
اپوزیشن جماعتیں موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال کو حکومت کے خلاف باہر آنے کا بہترین وقت قرار دے رہی ہیں تاہم یہ جماعتیں ابھی احتجاج کے طریقہ کار پر غور و فکر کر رہی ہیں۔ اسی مقصد کے لیے عید الفطر کے بعد جون کے دوسرے ہفتے میں ایک کل جماعتی کانفرنس بلائے جانے کا امکان ہے جس کی میزبانی مولانا فضل الرحمن کریں گے۔
ماضی کی سیاسی مخالف جماعتیں بھی اگرچہ اس اتحاد میں شامل ہیں لیکن ہر جماعت اپنے نظریے کے مطابق سیاسی نقطہ نظر رکھتی ہے اور اپنے مفادات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جا رہا ہے۔ ان جماعتوں کا خیال ہے کہ حکومت پر دباؤ جمہوری انداز میں ڈالا جائے تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو موقع نہ مل سکے۔
اپوزیشن جماعتوں کی تجاویز
سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی اس بارے میں کہتے ہیں کہ اگر اپوزیشن جماعتیں باہر نہ نکلیں تو حالات سے تنگ پورے ملک کی عوام خود باہر آجائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے پر متفق ہوکر بیٹھنا شروع ہوئی ہیں اور پیپلز پارٹی کی افطاری اسی کا شاخسانہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت مخالف تحریک پر مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں اپنی تجاویز مرتب کر چکی ہیں تاہم جون کے پہلے ہفتے میں اے پی سی بلائی جا رہی ہے جس میں مشاورت سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
’حکومت کو ہٹا کر قبل ازوقت انتخابات کے ایک نقطہ پر اپوزیشن متفق ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی یہ فیصلہ کر چکے ہیں لیکن اب ہر جماعت اپنے نقطہ نظر کے مطابق حتمی فیصلہ کرے گی کیونکہ ہر جماعت کی خواہش کے مطابق کسی ایک نقطہ پر آنا مشکل ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر پیپلز پارٹی کے رہنما نوید چودھری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ’حکومت بجٹ کے بعد تبدیل ہو جائے گی کیونکہ انتظامی، معاشی اور سیاسی طور پر مکمل ناکام ہونے والی جماعت کو مزید وقت نہیں دیا جاسکتا۔‘
نوید چودھری نے کہا کہ پارلیمان میں عددی اکثریت بھی زیادہ نہیں جس کا اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو فائدہ ہوگا، ان ہاؤس تبدیلی کی تجاویز ضرور زیر غور ہیں لیکن بڑی جماعتیں اس سے متفق نہیں۔ وہ دوبارہ شفاف انتخابات چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف تحریک میں ٹرین مارچ، لانگ مارچ اور ریلیاں نکال کر حکومت پر دباؤ ڈالنے کے حق میں ہے جبکہ مسلم لیگ ن مختلف شہروں میں اور ایوانوں کے سامنے ہفتہ وار احتجاج چاہتی ہے۔ اسی طرح جمعیت علما اسلام (ف) اسلام آباد اور صوبائی دارلحکومتوں میں دھرنا دے کر ملک جام کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جبکہ پیشتون تحفظ موومنٹ بھی دھرنے کی حامی ہے۔
جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت سے فوری نجات کے لیے دھرنوں سے بہتر کوئی راستہ نہیں اور یہ روایت حکمران جماعت نے خود قائم کی ہے، تو ان سے ان کے طریقے سے ہی نمٹا جائے۔
حکومت مخالف تحریکوں کے اثرات
سینیئر صحافی رانا طاہر کے مطابق احتجاجی تحریکوں سے پاکستان میں آخری بار 1977 میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت گرائی گئی تھی اس کے بعد احتجاجی تحریکوں کے لیے فقط ماحول بنا دیا گیا، اس ماحول کی بنیاد پر غلام اسحاق خان جیسے با اختیار صدر نے دو حکومتوں کو فارغ کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ سردار فاروق خان لغاری نے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو فارغ کیا لیکن اسے فارغ کرنے کے بعد حالات کو اپنے ذہن میں سوچے منصوبہ کے مطابق چلا نہ پائے۔ نئے انتخابات ہوئے تو نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم کے منصب پر لوٹ آئے۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے چند ہی روز بعد انہوں نے فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔
’ان کے مبینہ سہولت کار چیف جسٹس سے بھی نجات حاصل کر لی گئی۔ آئینی ترامیم کے ذریعے نو منتخب صدر سے حکومتیں فارغ کرنے کا اختیار بھی چھین لیا گیا۔‘
رانا طاہر کہتے ہیں کہ 12 اکتوبر 1999 کا دن لانے میں کسی احتجاجی تحریک کا کوئی کردار نہیں تھا۔ عسکری اور سویلین قیادت کے مابین کارگل کے بعد سے بڑھتی بدگمانیوں نے جنرل مشرف کے ٹیک اوور کی گنجائش پیدا کی۔ مولانا فضل الرحمن شدید غصے کے باوجود 1977 کی واپسی ہرگز نہیں چاہیں گے۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعتیں بھی موجودہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اقتدار میں واپسی کی خواہاں ہیں، کیونکہ پی ٹی آئی نے بھی 2014 میں مسلم لیگ ن کے خلاف 126 دن اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا جس سے حکومت کو نہیں گرایا جا سکا اس لیے احتجاجی تحریک کے ذریعے عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ وہ قبل از وقت انتخابات کی خاطر پاکستانی معیشت میں بہتری کے بغیر موجودہ قومی اسمبلی کو توڑنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوں گے۔
معیشت پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا اصرار ہے کہ آئندہ دو سالوں تک معیشت مزید خراب ہوگی۔ ان حالات میں کوئی اور سیاست دان ان کی جگہ لینے کو بھی تیار نہیں ہوگا۔ بظاہر عمران خان کی حکومت کے لیے 2020 تک کوئی سنجیدہ خطرہ دکھائی نہیں دے رہا۔