امریکہ کی افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے خاتمے کا وقت اب قریب ہے اور وہاں موجود امریکیوں کو نکال کر فوجی اپنا مشن کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
پینٹاگون کے جوائنٹ سٹاف میجر جنرل ہینک ٹیلر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لازمی بات ہے ہم اپنے طے شدہ مشن کے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ انخلا کے دوران کی جانے والی آخری نقل و حرکت کی تفصیلات کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر مخفی رکھا جا رہا ہے۔
تاہم انہوں نے اتنا بتایا کہ پیر تک 122000 سے زائد افراد جن میں 5400 امریکی بھی شامل ہیں کو افغانستان سے نکال لیا گیا ہے۔
جبکہ اسی نیوز کانفرنس کے دوران پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ ’رہ جانے والے امریکیوں کو افغانستان سے نکلنے کے لیے کابل ایئرپورٹ تک پہنچنے میں ابھی دیر نہیں ہوئی ہے۔‘
LIVE: @PentagonPresSec John F. Kirby and deputy director for regional operations and force management for the @TheJointStaff, Army Maj. Gen. William “Hank” Taylor, hold a news briefing at the Pentagon. https://t.co/r30BN34cBS
— Department of Defense (@DeptofDefense) August 30, 2021
جان کربی کا کہنا تھا کہ ’ابھی بھی وقت ہے۔‘ انہوں نے کہ ’ہم جتنے زیادہ لوگوں کو نکال سکتے ہیں انہیں نکالنے کی کوشش کریں گے۔‘
’افغانستان میں وجود کمانڈرز کے پاس حفاظت کے لیے تمام تر ذرائع موجود ہیں۔‘
انہوں نے پریس بریفنگ کے آخر میں ایک سوال پر صحافی کو روکتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے لیے خاص طور پر یہ وقت خطرناک ہے۔ ایسا نہیں کہ پہلے خطرہ نہیں تھا لیکن یہ وقت خاص طور پر ہے اور ہم ہر بارے میں تفصیلات نہیں دے سکتے۔‘
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امید کا اظہار کیا ہے کہ غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد داعش کے حملے ختم ہو جائیں گے، ساتھ ہی انہوں نے داعش کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’امید ہے کہ داعش سے متاثر ہونے والے افراد غیر ملکیوں کی غیرموجودگی میں اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد اپنی کارروائیاں ترک کردیں گے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ ’اگر انہوں نے جنگ کی صورت حال پیدا کی اور اپنی کارروائیاں جاری رکھیں تو ہم (اسلامی حکومت) ان سے نمٹ لیں گے۔‘
خیال رہے کہ جمعرات کو بھی کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری داعش نے ہی قبول کی تھی۔ اس حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت متعدد افراد مارے گئے تھے۔
اس حملے کے بعد پینٹاگون کے مطابق اتوار کو داعش کے خلاف جوابی کارروائی کی گئی اور امریکہ نے ایک ڈرون حملے میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
تاہم اس حوالے سے ذبیح اللہ مجاہد نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسی کارروائیوں کی اجازت نہیں ہے، ہماری آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔‘
کابل ایئرپورٹ پر داغے گئے راکٹ ناکارہ بنادیے گئے: امریکہ
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے دفاعی ریڈار سسٹم نے پیر کی صبح کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر داغے گئے راکٹوں کو ناکارہ بنا دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈے پر کم از کم پانچ راکٹ داغے گئے، لیکن اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے اسے ناکارہ بنا دیا گیا۔
امریکی حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ فوری طور پر زخمیوں یا شدید نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
افغانستان میں شدت پسند تنظیم داعش کا کہنا ہے کہ اس نے پیر کو افغان دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے پر ایک راکٹ داغا تھا۔
داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ’کامیاب‘ حملہ تھا، لیکن حکام نے کہا کہ پانچوں میزائلوں کو ہوا میں ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔
اشرف غنی کے مشیر گرفتار؟
طالبان نے سابق افغان صدر محمد اشرف غنی کے ایک اہم مشیر اور مذہبی سکالر کو گرفتار کر لیا ہے۔
مولوی سردار محمد زادران افغانستان کی علما کونسل کے سابق سربراہ تھے۔ مولوی زادران کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو صوبہ خوست سے گرفتار کیا گیا ہے۔
ایک شائع شدہ تصویر میں مولوی زادران آنکھیں بند کیے بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ مولوی زادران ایک بااثر مذہبی سکالر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور مبینہ طور پر انہوں نے طالبان کے خلاف مسلح جدوجہد کا مطالبہ کیا تھا۔
قطر امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی صورت حال میں اہم کھلاڑی
افغانستان سے انخلا کی امریکی کوششوں میں قطر کے اہم کردار کے باعث قیاس کیا جارہا ہے کہ یہ خلیجی عرب ریاست افغانستان کے مستقبل کی صورت حال میں اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے گی کیونکہ اس کے واشنگٹن اور طالبان دونوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو قطر عالمی ہیوی ویٹس میں شامل ہوگا جب امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن ایک ورچوئل میٹنگ کی میزبانی کریں گے تاکہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد مربوط نقطہ نظر پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ اس اجلاس میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ، ترکی، یورپی یونین اور نیٹو بھی شامل ہوں گے۔
مبینہ طور پر قطر نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ 31 اگست کو امریکی فوج کے انخلا کے بعد کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر سویلین تکنیکی مدد فراہم کریں، تاہم قطر کے حکام نے ان رپورٹس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ایجنسیاں بھی افغانستان کو امداد پہنچانے میں قطر سے مدد مانگ رہی ہیں۔
15 اگست کو کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد امریکہ نے سینکڑوں لوگوں کے انخلا کے لیے قطر سے مدد طلب کی تھی، جس کے بعد تقریباً 40 فیصد لوگوں کا انخلا قطر کے راستے ہوا۔
امریکہ اس بات پر بھی غور کر رہا تھا کہ افغانستان سے جانے کے بعد وہ قطر میں اپنا فوجی بیس بنائے جبکہ افغان طالبان پہلے ہی قطر میں اپنا سیاسی دفتر رکھتے ہیں۔ قطر امریکہ اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی میزبانی بھی کرچکا ہے۔
کابل میں انخلا کے لیے محفوظ زون بنانے کی قرارداد پیش کریں گے: میکروں
فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے کہا ہے کہ فرانس اور برطانیہ پیر کو اقوام متحدہ کے ایک ہنگامی اجلاس میں کابل میں افغانستان سے نکلنے والوں کے لیے محفوط زون بنانے کے لیے قراراداد پیش کریں گے۔
اے ایف پی کے مطابق فرینچ اخبار لے جرنل دو دمانچے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہماری قرارداد کی تجویز کا مقصد اقوام متحدہ کے کنٹرول میں کابل میں ایک محفوظ زون قائم کرنا ہے ، تاکہ انسانی بنیادوں پر (انخلا کا)کام جاری رکھا جا سکے۔‘
بعد میں عراقی شہر موصل کے دورے کے دوران انہوں نے یہی بات دہراتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس قرارداد کا احسن طریقے سے خیرمقدم کیا جائے گا۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میرا نہیں خیال کہ کوئی انسانی بنیادوں پر کیے جانے والے آپریش کو محفوظ بنانے کی مخالفت کرے گا۔‘
اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل انتونیو گوتیریش آج افغانستان کی صورت حال پر امریکی، فرانسیسی، برطانوی، چینی اور روسی ایلچیوں کے ساتھ اجلاس کریں گے جو سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ہیں۔
میکروں نے اس سے قبل کہا تھا کہ فرانس افغانستان کے انسانی بحران اور انخلا پر طالبان سے بات کر رہا ہے مگر بات کرنے کا مقصدر انہیں تسلیم کرنا نہیں ہے۔
ایئرپورٹ پر راکٹ حملے
عینی شاہدین اور سکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ پیر کی صبح کابل ایئرپورٹ کی جانب کئی راکٹ فائر ہونے کی آوازیں سنی گئیں، جس کے بعد وائٹ ہاؤس نے بھی حملے کی تصدیق کی۔
افغانستان میں اے ایف پی کے عملے کو صبح کے رش سے پہلے دارالحکومت پر راکٹوں کے اڑنے کی آواز سنائی دی۔
طالبان کے کنٹرول سے پہلے افغان انظامیہ میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ راکٹ کابل کے شمال میں ایک گاڑی سے داغے گئے۔
رہائشیوں نے ہوائی اڈے کے دفاعی نظام کے فعال ہونے کی آوازیں بھی سنی اور ملبہ نیچے گرتا بھی دیکھا جس سے اندازہ ہوتا ہے ایک راکٹ کو ہوا میں تباہ کر دیا گیا۔
شہر کے اس علاقے جہاں ہوائی اڈا واقع ہے وہاں سے دھواں اٹھتا بھی نظر آیا۔
دوسری جانب ایک امریکی اہلکار نے روئٹرر کو ابتدائی معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ کئی راکٹ کابل ہوائی اڈے کی جانب داغے گئے جنہیں دفاعی نظام نے روک لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ پانچ راکٹ فائر کیے گئے تھے مگر ابھی یہ واضح نہیں پانچوں تباہ ہوئے کہ نہیں۔
انہوں نے کہا ابھی ہلاکتوں پر زخمیوں کی رپورٹس نہیں مگر یہ بدل سکتا ہے۔
صدر جو بائیڈن کی ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا کہ صدر کو کابل راکٹ حملے پر بریفنگ دے دی گئی ہے اور وہاں ’آپریشن بغیر خلل کے جاری ہیں۔‘
کابل میں فضائی حملے پر تنقید
طالبان نے کابل میں مشتبہ خودکش بمبار کو فضائی حملے میں نشانہ بنانے پر امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں شہریوں کی جان گئی۔
ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو چینی سرکاری ٹی وی چینل سی جی ٹی این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فضائی حملے میں سات افراد مارے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملہ طالبان کو بتائے بغیر کیا گیا اور غیر ملکی سرزمین پر امریکی کارروائی غیرقانونی تھی۔
انہوں نے کہا: ’اگر افغانستان میں کوئی خطرہ تھا اس کی اطلاع ہمیں دی جانی چاہیے تھی، نہ کہ ایک حملہ جس میں شہری مارے گئے۔‘
’افغان شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات کر رہے ہیں‘
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز کابل ایئرپورٹ کی جانب بڑھنے والی دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی پر امریکی فضائی حملے میں افغان شہریوں کے مارے جانے کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے ترجان کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب نشریاتی ادارے سی این این خبر دے رہا تھا کہ اتوار کو افغانستان کے دارالحکومت میں کیے جانے والے امریکی فضائی حملے میں چھ بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے نو افراد جان سے گئے۔
مقامی میڈیا میں بھی افغان شہریوں کی ہلاکت کی رپورٹس چلتی رہیں تاہم اے ایف پی ان اموات کی تصدیق نہ کر سکا۔
یاد رہے کہ دو ہفتے قبل طالبان کے کابل کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد غیر ملکی اور ہزاروں کی تعداد میں افغان شہری ملک سے نکلنے کے لیے کابل ہوائی اڈے پر ہیں۔
سینٹ کام کے ترجمان کیپٹن بل اربن نے ایک بیان میں کہا: ’ ہم کابل میں آج ایک گاڑی پر ہمارے حملے کے بعد شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات سے آگاہ ہیں۔ ہم اس حملے کے نتائج کی جانچ کر رہے ہیں، جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس سے داعش خراسان سے ہوائی اڈے کو لاحق خطرے کو روکا گیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم جانتے ہیں گاڑی کے نشانہ بننے کے بعد کئی طاقتور دھماکے ہوئے جس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ گاڑی میں بھاری تعداد میں دھماکہ خیز مواد تھا جس سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ابھی واضح نہیں کہ کیا ہوا مگر ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
امریکی فضائی حملہ جمعرات کو داعش خراسان کے ایک خودکش بمبار کے کابل ایئرپورٹ کو نشانہ بنانے کے بعد کیا گیا، جس میں سو سے زائد افغان اور 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہوئے تھے۔
طالبان بھی اتوار کو کہہ چکے ہیں کہ فضائی حملے میں تباہ ہونے والی گاڑی کابل ایئرپورٹ کی جانب جا رہی تھی۔
’طالبان سربراہ افغانستان میں ہیں‘
طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گروہ کے سربراہ ہبت اللہ اخونزادہ افغانستان میں موجود ہیں۔
نائب ترجمان بلال کریمی نے اتوار کو کہا: ’میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ وہ قندھار میں ہیں اور جلد ہی عوام کے سامنے آئیں گے۔‘
غیرملکی 31 اگست کے بعد بھی ملک چھوڑ سکتے ہیں
طالبان نے سو ممالک کو یقین دہانی کروائی ہے کہ 31 اگست کو امریکی انخلا کے بعد بھی وہ غیر ملکیوں اور بیرون ملک سفر کے کاغذات رکھنے والے افغان شہریوں کو ’محفوظ اور منظم انداز میں‘ ملک سے جانے دیں گے۔
ان سو ممالک میں امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق ان ممالک کے گروپ نے ایک بیان میں کہا: ’ہمیں طالبان کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ تمام غیرملکی شہری اور ہمارے ممالک کا سفری اجازت نامہ لیے کسی بھی افغان شہری کو ملک سے باہر جانے کے مقامات تک محفوظ اور منظام انداز میں جانے دیا جائے گا۔
بیان جس پر یورپی یونین اور نیٹو نے بھی دستخط کیے میں کہا گیا کہ اس گروپ کے ممالک ’مخصوص افغان شہریوں‘ کو سفری دستاویزات جاری کرتے رہیں گے اور ’ہمیں طالبان سے واضع توقع اور یقین دہانی ہے کہ یہ ہمارے ممالک کا سفر کر سکتے ہیں۔‘
خواتین کو جامعات میں غیر مخلوط تدریس کی اجازت ہوگی: افغان طالبان
افغان طالبان کے قائم مقام وزیر برائے اعلیٰ تعلیم نے اتوار کو کہا ہے کہ ان کے دور حکومت میں افغان خواتین کو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی لیکن مخلوط جماعتوں پر پابندی ہوگی۔
اے ایف پی کے مطابق عبدالباقی حقانی نے لویا جرگہ میں قبائلی عمائدین کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’افغانستان کے لوگ شریعت کے قانون کے تحت محفوظ انداز میں اپنی اعلیٰ تعلیم جاری رکھیں گے لیکن مردوں اور خواتین کی مخلوط تدریسی جماعتوں پر پابندی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ ایک ایسا ’مناسب اسلامی نصاب بنایا جائے جو ہماری اسلامی، قومی اور تاریخی اقدار کے مطابق بھی ہو اور دوسری جانب دیگر ممالک سے مسابقت بھی رکھتا ہو۔‘
سکولوں میں پرائمری اور سیکنڈری جماعتوں کی سطح پر بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ علیحدہ کیا جائے گا جو کہ افغانستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں پہلے سے ہی عام ہے۔
طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ حقوق نسواں کا احترام کریں گے لیکن اسلامی اصولوں اور قوانین کی روشنی میں۔
اتوار کو کابل میں طالبان کے دیگر اعلیٰ رہنماؤں کی ملاقات کے دوران کوئی خاتون موجود نہیں تھی۔
گذشتہ حکومت کے دوران سٹی یونیورسٹی میں کام کرنے والی لیکچرار نے بتایا کہ ’طالبان کی وزارت اعلیٰ تعلیم نے صرف مرد اساتذہ و طلبہ سے جامعات کے تدریسی عمل کو شروع کرنے پر مشاورت کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے ’فیصلہ سازی میں خواتین کی شرکت کی منظم روک تھام اور طالبان کے وعدوں اور عمل میں فرق‘ ظاہر ہوتا ہے۔
جامعات میں خواتین کے داخلوں کی تعداد گذشتہ 20 سالوں کے دوران بڑھی ہے جنہوں نے مردوں کے ساتھ تعلیم حاصل کی اور مرد پروفیسرز کے ساتھ سیمینارز میں حصہ لیا۔ لیکن حالیہ مہینوں کے دوران تعلیمی اداروں پر ہونے والے حملوں کے بعد افراتفری کا عالم ہے۔
طالبان نے ان حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے جن کی ذمہ داری داعش کے مقامی گروہوں نے قبول کی تھی۔