طالبان کو اسلحہ اور فنڈ کہاں سے ملتے ہیں؟

یہ طے کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ طالبان ہر سال کتنا پیسہ اکٹھا کرتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان ہر سال 22 کروڑ ڈالر سے لے کر ایک ارب 17 کروڑ ڈالر اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

یکم ستمبر کو طالبان قندھار میں گشت کرتے ہوئے (اے ایف پی)

طالبان نے جس طرح تیزی کے ساتھ ہفتوں میں پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا اس سے انکشاف ہوتا ہے کہ وہ 2001 میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے کتنے دولت مند ہو چکے ہیں۔

گذشتہ دو دہائیوں میں جو علاقے طالبان کے زیر انتظام تھے انہوں نے وہاں معیشت کو ایسا ہی چلایا جس طرح کوئی ملک چلاتا ہے۔ انہوں نے پیسوں کے حصول کے لیے مختلف ذرائع پر انحصار کیا جیسے منشیات کی سمگلنگ، دوسری مجرمانہ سرگرمیاں، بھتہ خوری، ٹیکسز، عطیات اور غیر ملکی امداد۔

لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے مرکز برائے مالیاتی جرائم اور سکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر ٹوم کیٹنگا نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ ’طالبان نے’علاقے پر کنٹرول‘ کا روایتی مالیاتی ماڈل اپنا رکھا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ اپنے فنڈ کا بڑا حصہ لوگوں اور ان علاقوں میں ہونے والے کاروباروں سے حاصل کرتے ہیں جو ان کے زیر انتظام ہیں۔‘

یہ طے کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ طالبان ہر سال کتنا پیسہ اکٹھا کرتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان ہر سال 22 کروڑ ڈالر سے لے کر ایک ارب 17 کروڑ ڈالر اکٹھے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

طالبان کی آمدن کے جس ذریعے سے متعلق سب سے زیادہ ریکارڈ موجود ہے وہ افیون، حششیش، میتھم فیٹیمنز اور دوسری منشیات ہیں۔ ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے شعبہ بین الاقوامی سلامتی کے ڈائریکٹر اور لندن سکول آف اکنامکس کے وزٹنگ ٹیچر سجن گوہل کے بقول: ’طالبان کئی طرح کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے فرنٹ کمپنیاں بنا رکھی ہیں۔ آمدن کا بنیادی ذریعہ منشیات ہیں جن میں ہیروئن اور مصنوعی طریقے سے تیار کی گئی منشیات دونوں شامل ہیں۔‘

اقوام متحدہ کی ورلڈ ڈرگ رپورٹ 2020 کے مطابق سالوں تک افیون کی عالمی پیداوار میں افغانستان کا حصہ تقریباً 84 فیصد رہا ہے۔ طالبان نے افیون کی تیاری، نقل و حمل اور فروخت کے ہر مرحلے پر ٹیکس لگا دیا۔ طالبان نے اپنے زیر انتظام علاقوں میں ٹیکس کا ایسا نظام واضع کیا جس میں کمپنیوں، دکانداروں، موٹرویز استعمال کرنے والے ٹرکوں عالمی امدادی منصوبوں کو شامل کیا گیا۔

انہوں نے’عشر‘ کے نام سے 10 فیصد اسلامی ٹیکس اور ڈھائی فیصد زکواۃ بھی اکٹھی کی۔ زکواۃ سالانہ اسلامی ٹیکس ہے جو دولت پر وصول کیا جاتا ہے۔

گذشتہ سال ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی نے نیٹو کی ایک خفیہ رپورٹ نشر کی جس میں سینیئر طالبان رہنما ملا یعقوب کے حوالے سے بتایا گیا کہ طالبان نے ٹیکسوں کی شکل میں 11 کروڑ 70 لاکھ ڈالر جمع کیے۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر لورل ملر نے بی بی سی ریڈیو 4 کے پروگرام دا بریفنگ روم میں بتایا: ’ہم یہاں ٹیکس کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں ہمارا مطلب بھتہ وصولی ہے۔ یہ کوئی معمول کا ٹیکس نہیں ہے۔ یہ مافیا کی طرح کی کارروائی ہے۔‘

طالبان کے پاس بڑی تعداد میں ہتھیاروں کے ذرائع کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ’دہائیوں جاری رہنے والی جنگ کے بعد افغانستان ایسی جگہ بن چکا ہے جہاں ہتھیاروں کی فراوانی ہے۔ یہاں ہتھیار حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔‘

لیکن طالبان کو سب سے زیادہ آمدن قانونی اشیا جیسا کہ ایندھن، خوراک، ادویات اور اشیائے ضرورت کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے نقل و حمل اور کسٹمز سے ہوتی ہے۔ افغان وزارت خزانہ کے ترجمان رفیق اللہ تابع نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ سابق حکومتوں نے مئی تک کسٹمز سے تقریباً چھ  کروڑ 65 لاکھ کا ریونیو اکٹھا کیا۔

لیکن جب طالبان کی کارروائیاں تیز ہوئیں تو مزید اہم سرحدی گزرگاہیں ان کے قبضے میں چلی گئیں۔ اس لیے حکومت کو حاصل ہونے والا ریونیو جون میں کم ہو کر چار کروڑ 15 لاکھ ڈالر رہ گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ کی بنائی ہوئی شیر خان بندر کی سرحدی گزر گاہ جو تاجکستان اور صوبہ قندوز کے لیے اہم گزر گاہ ہے، وہاں پر اسی طرح معمول کے مطابق کام جاری رہے گا جیسے پہلے تھا۔ ان کے بقول اس کی وجہ ہے کہ ’ہم کاروباری افراد، تاجروں اور عام لوگوں کے لیے مسائل نہیں پیدا کرنا چاہتے۔‘

سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوا ہے کہ گذشتہ سال ایران کے ساتھ تین افغان سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے 1.46 ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہوئی۔ تاہم اوورسیز ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ غیر رسمی تجارت کو شامل کیا جائے جو یہ اعدادوشمار دگنے ہو جائیں گے۔

گوہل کے مطابق: ’منشیات کی سمگلنگ اور سرحدی گزرگاہیں طالبان کی آمدن کا بڑا ذریعہ رہیں گی لیکن جیسے کہ وہ زیادہ تر افغانستان پر کنٹرول حاصل کر رہے ہیں، طالبان ملک کے قدرتی معدنی وسائل کو فروغ دینا اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ اس کام میں مدد کے لیے شراکت دار تلاش کریں گے۔ سب سے زیادہ اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان اور چین ان کی مدد کریں گے۔‘

کان کنی طالبان کی آمدن کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ اور نیٹو کا اندازہ ہے کہ طالبان نے کان کنی کی شعبے سے ہر سال تقریباً 34 لاکھ ڈالر کمائے۔ لیکن دوسرے ملکوں نے طالبان کی صرف تجارت یا کان کنی کے شعبے کی ترقی کے ذریعے مدد نہیں کی بلکہ ان کی مدد میں فنڈ کی براہ راست فراہمی بھی شامل ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی طویل عرصے تک مخصوص ملکوں جیسے پاکستان، ایران اور روس پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ اس گروپ کو پیسہ اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں اور طالبان رہنماؤں کو محفوظ ٹھکانہ دیتے ہیں۔ یہ ممالک ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

اس کے باوجود ماہرین نے اپنی بات دہرائی ہے کہ پاکستان، سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ملکوں کی شخصیات کو طالبان کے لیے فنڈز کا پرکشش ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا اندازہ ہے کہ ان شخصیات کی طرف دیے جانے والے فنڈز سالانہ تقریباً ساڑھے 36 کروڑ ڈالر ہو سکتے ہیں۔

گوہل نے انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’طالبان پاکستان میں موجود اپنے نیٹ ورکس پر انحصار کرتے رہیں گے کیونکہ وہ ان کی آمدن کا بنیادی راستہ اور ذریعہ ہیں۔‘

لیکن گذشتہ ہفتے کابل پر اپنے حیران کن کنٹرول کے بعد طالبان کو زوال پذیر افغان معیشت سے نمٹنے کے نازک مسئلے کا سامنا ہے جو غیر ملکی امداد پر زندہ تھی۔ عالمی بینک نے تصدیق کی ہے کہ غیر ملکی طاقتوں نے ہر سال کابل کو تین ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم فراہم کر کے افغان حکومت کے تقریباً 75 فیصد اخراجات پورے کیے۔ تباہ حال معاشی صورت حال کے باوجود اس بات کا امکان ہے کہ طالبان کے پورے افغانستان پر کنٹرول سے ان کا خزانہ بڑھے گا اور انہیں اپنے غیر ملکی سرپرستوں سے زیادہ مالی خود مختاری ملے گی۔

ٹوم کیٹنگا کا کہنا ہے کہ ’طالبان جیسی کوئی بھی تنظیم اپنی مالی کمزوری کو محدود کرنا چاہے گی۔ اس لیے وہ اپنی سرگرمیوں کے اخراجات کو جتنا زیادہ ہو سکے اپنے زیر انتظام وسائل سے پورا کرے گی۔ تاہم یہ دیکھنا ہو گا کہ کون سی غیر ملکی حکومتیں ان سے ہمدردری رکھتی ہیں۔ ان کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتی ہیں اور ممکنہ طور پر نئی انتظامیہ کے ساتھ تجارتی یا دوسرے معاشی تعلقات قائم کرتی ہیں۔‘

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مستقبل کی کسی بھی طالبان حکومت کے لیے اپنے آپ کو عالمی سطح پر تسلیم کروانا آخری ہدف بن چکا ہے۔ اس طرح طالبان حکام کو عالمی رہنماؤں کے ساتھ بین الاقوامی اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملنے کے ساتھ ساتھ عالمی امداد کی فراہمی کی بھی ضمانت ملے گی جو ان کی حمکرانی کو سہارا دینے کے لیے ضروری ہے۔ طالبان کمانڈرز 20 سال سے حکومت سے باہر ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان میں بہت سے کمانڈروں کا مایوسی کی شکار قوم کی روزمرہ کی زندگی کو معمول کے مطابق بنانے کے عمل سے تعلق ختم ہو گیا ہو۔ نئی حقیقت کے لیے اضافی فنڈز کی ضرورت پڑے گی کیونکہ طالبان شدید قسم کے شک میں مبتلا افغانوں کے دل و دماغ کو جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیٹنگا کے بقول: ’تاہم طالبان کے لیے ممکنہ خطرہ موجود ہے جو یہ ہے کہ انہوں نے قومی حکومت کے قیام کی مخالفت چھوڑ دی ہے۔ در اصل وہ خود قومی حکومت ہیں اس لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان خدمات کے لیے فنڈ فراہم کریں اور انہیں برقرار رکھیں جو سابق حکومت فراہم کر رہی تھی۔‘

یہ وہ حتمی آزمائش ہے جس کا سامنا ان مغربی طاقتوں کو ہے جنہوں نے سابقہ طالبان انتظامیہ کو اقتدار سے الگ کرنے کی کارروائی میں حصہ لیا۔ مثال کے طور، افغان سنٹرل بینک کے سابق قائم مقام گورنر کے مطابق امریکہ میں افغان سنٹرل بینک کے غیر ملکی زر مبادلہ کے نو ارب ڈالر میں سے سات ارب ڈالر نیویارک کے فیڈرل ریزرو بینک نے منجمد کر رکھے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ پہلے ہی فنڈز تک رسائی روکنے کے ارادے کا اظہار کر چکی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی کہا ہے کہ وہ 40 کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم روک لے گا جو اس سے پہلے افغانستان کو دی جانی تھی۔

کیٹنگا کے بقول: ’مجھے ڈر ہے کہ اس تمام صورت حال میں جو لوگ تکلیف اٹھائیں گے وہ ہوں گے جنہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کیے جانے والے فنڈ پر انحصار کیا۔ یہ گذشتہ ہفتے ختم ہونے والی افغان حکومت کا باقی رہنے والا ورثہ ثابت ہو سکتا ہے۔‘

گوہل نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری  بن چکی ہے۔ اب انہیں طالبان ملیشیا کو تسلیم کرنا اور اسے قانونی حیثیت دینا ہوگا اور وہ راستے تلاش کرتے رہنا ہو گا جن کے ذریعے انہیں رقوم کی فراہمی کے خفیہ راستے بند کیے جا سکیں کیونکہ اس صورت حال کا نتیجہ دہشت گردی کے لیے فنڈ کی فراہمی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کے اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو نچلی سطح پر کام کرنے کے قابل بنانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں تا کہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کا تسلسل برقرار رہے۔ افغانستان کے لوگوں کو طالبان کے رحم و کرم پر نہیں ہونا چاہیے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا