افغان صوبے پنج شیر کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر متضاد خبریں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں جن سے تاحال یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ آیا پنج شیر کا کنٹرول طالبان نے حاصل کر لیا ہے یا نہیں۔
اس حوالے سے طالبان اور پنج شیر میں احمد مسعود کی سربراہی میں بنائے گئے’مزاحمتی فرنٹ‘ کی جانب سے ایک دوسرے کے جانی نقصان کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
بعض بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر مختلف رپورٹس سامنے آرہی ہیں لیکن ان میں بھی زیادہ تر خبریں ذرائع کے حوالے سے دی جا رہی ہیں۔
جیسا کہ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اب سے کچھ دیر قبل ہی خبر شائع کی جس میں انہوں نے تین طالبان ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’پنج شیر پر اب طالبان کا مکمل کنٹرول ہے۔‘
دوسری جانب سوشل میڈیا پر امراللہ صالح کی ایک ویڈیو شیئر کی جا رہی ہے جس میں وہ طالبان کے کنٹرول کی خبروں کی تردید کر رہے ہیں۔
جب اس تمام معاملے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ نے طالبان سے جاننے کی کوشش کی تو ان کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں آیا۔
طالبان ترجمان قاری محمد یوسف احمدی کا کہنا تھا کہ انہیں اسے بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت تک مجھے پنج شیر پر قبضے کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملی ہیں۔‘
یورپی ممالک نے طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے شرائط رکھی ہیں جن کے تحت کابل میں سکیورٹی صورت حال کے بہتر ہونے پر سویلین عملے کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے گا۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کا کہنا ہے کہ ’ہمیں افغانستان کی نئی حکومت سے تعلقات رکھنے ہوں گے جس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسے تسلیم کر رہے ہیں۔ یہ آپریشنل تعلقات ہوں گے اور یہ تعلقات اس حکومت کے رویے کو دیکھ کر بڑھائے بھی جا سکتے ہیں۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جوزف بوریل نے نئی انتظامیہ کے لیے کئی معیار مقرر کیے ہیں جن پر اسے پورا اترنا ہو گا۔
ان شرائط میں افغانستان کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرنے دینا، خواتین اور میڈیا کے حقوق کا احترام اور ایک ایسی حکومت کا قیام شامل ہے جن میں تمام افغانوں کی نمائندگی ہو۔
اس کے علاوہ نئی اتنظامیہ کو امداد کے لیے رسائی کی اجازت بھی دینی ہو گی۔
جوزف بوریل کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبان کو اپنے اس وعدے پر بھی عمل کرنا ہو گا جس میں انہوں نے خطرے کے شکار غیر ملکیوں اور افغان شہریوں کو افغانستان سے جانے کی اجازت دینے کا کہا ہے۔‘
ان کے مطابق یورپی یونین اس وقت بھی خطرے کے شکار سینکڑوں یا ہزاروں افراد کو افغانستان سے نکالنے کے لیے پر امید ہے۔
جوزف بوریل کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں وہ کون ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ وہ ایک آزاد اور جمہوری افغانستان بنانے کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ ہم انہیں باہر نکالنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
دوسری جانب جرمنی کے وزیر خارجہ ہائکو ماس کا کہنا ہے کہ ’یہ شرائط ہمارے لیے ناقابل بحث ہیں۔‘
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کسی کو یہ غلط فہمی نہیں کہ یہ سب کچھ آنے والے کچھ دنوں میں مکمل ہو جائے گا۔‘
ان کے مطابق یہ ایک طویل عمل ہے۔
روس کے صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ وہ امید رکھتے ہیں طالبان مہذب ہونے کا ثبوت دیں گے تاکہ عالمی برادری ان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر سکے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’روس افغانستان کی ٹوٹ پھوٹ میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی ایسا نہیں ہو گا جس سے بات کی جا سکے۔‘
وہ روس کے مشرقی شہر ولادی ووستوک میں منعقد ہونے والے ایسٹرن اکنامک فورم سے جمعے کو خطاب کر رہے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبان جتنے جلدی تہذیب یافتہ افراد کی برادری میں داخل ہوں گے ان سے بات کرنا، رابطہ کرنا اور ان پر اثرورسوخ استعمال کرنا اور سوال پوچھنا اتنا ہی آسان ہو گا۔‘
روسی صدر کا کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ کے آخر میں افغانستان سے ہونے والا امریکی انخلا ایک ’سانحے‘ سے کم نہیں تھا۔
پوتن کا کہنا تھا کہ ’امریکہ نے افغانستان میں 15 سو ارب ڈالر خرچ کیے لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔‘
روس تاحال طالبان کے حوالے سے کافی محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
طالبان کے افغانستان پر مکمل کنٹرول کے بعد روسی سفیر نے کابل میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات بھی کی تھی جب کہ روس نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ کھلا رکھنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
روس تنبیہ جاری کر چکا ہے کہ افغانستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے انتہا پسند ہمسایہ ممالک میں پناہ گزینوں کے روپ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے افغانستان کی سرحدیں تین سابقہ سوویت ریاستوں سے ملتی ہیں جہاں روس کے فوجی اڈے موجود ہیں۔
’پیس ڈیفینڈرز بمقابلہ ’پیس ہیروز‘
افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد پہلی مرتبہ جمعہ کو کابل کرکٹ سٹیڈیم میں ’انڈپینڈنس ٹرافی‘ کے نام سے ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا گیا جسے دیکھنے کے لیے تماشائیوں کی بڑی تعداد سٹیڈیم میں موجود تھی۔
جن دو ٹیموں کے درمیان یہ میچ کھیلا گیا انہیں ’پیس ڈیفینڈرز‘ یعنی امن کا دفاع کرنے والے اور ’پیس ہیروز‘ یعنی امن کے ہیرو کا نام دیا گیا تھا۔
اس موقع پر سٹیڈیم میں بعض طالبان رہنما بھی موجود تھے۔ یہی نہیں بلکہ جمعے کو کھیلے جانے والے اس میچ کے دوران سٹیڈیم میں طالبان اور افغان جھنڈے ایک ساتھ دکھائی دیے۔
افغان کرکٹ بورڈ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس میچ کا مقصد قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا تھا۔
ٹی ٹوئنٹی میچ میں افغانستان کے قومی کرکٹرز نے بھی شرکت کی۔
افغان طالبان کے ذرائع نے بتایا ہے کہ امارات اسلامی کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر نئی افغان حکومت کی قیادت کریں گے، جس کا اعلان جلد کیا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تین ذرائع نے بتایا ہے کہ ملا برادر، جو قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں، طالبان کے بانی ملا عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب اور شیر محمد عباس ستانکزئی نئی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر شامل ہوں گے۔
ایک طالبان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا: ’تمام اعلیٰ رہنما کابل پہنچ چکے ہیں، جہاں نئی حکومت کے اعلان کے لیے تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔‘
طالبان حکومت تسلیم نہیں کرتے لیکن رابطے کی اہمیت سمجھتے ہیں: برطانیہ
برطانیہ نے افغانستان سے اپنے شہریوں کے انخلا میں مدد فراہم کرنے پر اسلام آباد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان سمیت شورش زدہ ملک کے پڑوسیوں کو افغان پناہ گزینوں کی مدد کے لیے تین کروڑ پاؤنڈ کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے جمعے کو اسلام آباد میں اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ برطانیہ اور پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن آئے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم افغانستان میں امن کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں اور افغانستان کی انسانی ہمدری کی بنیاد پر مدد جاری رکھیں گے۔'
برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ 'ہم افغانستان میں بہتر اور مستحکم مستقبل کے حوالے سے مشترکہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ افغانستان میں کئی دھڑے ہیں، ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے، امداد اس لیے جاری ہے تاکہ افغانستان میں مزید بحران پیدا نہ ہو۔'
انہوں نے بتایا کہ برطانیہ نے دوحہ میں ایک اتاشی مقرر کیا ہے۔ 'ہم طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے لیکن ہم اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہی کہ ایک براہ راست رابطے کا ذریعہ ہو، کیونکہ بہت سارے معاملات ہیں جنہیں ہمیں دیکھنا ہے اور ان میں سب سے اہم برطانوی شہریوں کا انخلا ہے۔'
ڈومینک راب نے مزید کہا کہ 'طالبان نے سنجیدہ یقین دہانیاں کروائی ہیں، لہذا ہمیں دیکھنا ہے کہ وہ اپنے بیانات میں کتنے سچے ہیں۔'
پاکستان پر عائد سفری پابندیوں کے حوالے سے برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر کیا جائے گا۔
اس موقع پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ نے سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے۔
شاہم محمود قریشی نے مزید بتایا کہ برطانوی ہم منصب سے ملاقات میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے اقدامات کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔
ویسٹرن یونین اور منی گرام کا افغانستان میں خدمات کی فراہمی کا دوبارہ آغاز
امریکی فنانشل سروسز کمپنیوں ویسٹرن یونین اور منی گرام نے افغانستان میں خدمات کی فراہمی کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ویسٹرن یونین کی ترجمان نے بتایا کہ ’ویسٹرن یونین نےافغانستان کے لیے دو ستمبر سےاپنی منی ٹرانسفر سروسز کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے، جس کے بعد ہمارے صارفین اپنے پیاروں کو ایک بار پھر پیسے بھیج کر ان کی مدد کرسکتے ہیں جو خوشی کا باعث ہے کیونکہ ہم اپنے صارفین کی اپنے خاندانوں کی ضروریات اور ان کی مدد کرنے کے جذبے کو سمجھتے ہیں۔‘
ترجمان نے کہا: ’ویسٹرن یونین تین سے 17 ستمبر تک رقوم کی منتقلی پر فیس نہیں لے گا جبکہ ہمارے صارفین سات بینکوں کے ذریعے افغانی اور امریکی ڈالر میں رقوم کی منتقلی کرسکتے ہیں۔‘
ترجمان نے مزید کہا کہ ’رقوم کی منتقلی کا عمل بینکنگ نیٹ ورک بند ہونے اور یقینی طور پر لیکویڈیٹی مسائل کے باعث معطل کر دیا گیا تھا لیکن اب ہمارے بینکنگ پارٹنرز نے حالیہ دنوں میں متعدد شاخیں کھولنے کی یقین دہانی کروائی اور ہر روز مزید شاخیں کھل رہی ہیں اور یہ بھی یقین ہے کہ یہ بینک بہتر لیکویڈیٹی کے حامل ہیں۔‘
طالبان کی مدد کا الزام مسترد، انخلا کی کوششوں پر پاکستان امریکہ کا معترف
امریکہ کی 20 سالہ جنگ کے اختتام پر گذشتہ ماہ امریکی افواج کے انخلا کے آخری دنوں میں طالبان نے تیزی سے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرلیا، جس پر سابق افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ملک کا کنٹرول سنبھالنے میں طالبان کی کامیابیوں کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔
انہوں نے طالبان کی جانب سے پاکستانی سرزمین کو متعدد طریقوں سے استعمال کرنے کی طرف اشارہ کیا، جس میں طالبان رہنماؤں اور ان کے خاندانوں کو ملک میں رہنے کی اجازت دینے اور زخمی جنگجوؤں کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ 10 سے 15 ہزار افراد کو طالبان کی مدد کے لیے بھیجنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
تاہم امریکہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فوجیوں اور شہریوں کے انخلا میں مدد فراہم کرنے پر پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔
ایک پریس بریفنگ کے دوران جب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے اشرف غنی کے اس دعوے پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ 10 سے 15 ہزار پاکستانیوں نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طالبان کی کارروائیوں میں حصہ لیا، تو انہوں نے کہا: 'میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس پر تبصرہ کروں اور ان رپورٹس کی تصدیق کروں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم انہوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ 'کیا واشنگٹن اب بھی اشرف غنی کو افغانستان کا حکمران مانتا ہے۔'
دوسری جانب امریکہ محکمہ دفاع پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے بھی اشرف غنی کی حکومت گرنے میں پاکستان کے کردار کو مسترد کردیا۔
ایک پریس بریفنگ کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان نے 10 سے 15 ہزار افراد کو افغانستان بھیجا تاکہ وہ طالبان کو ملک پر کنٹرول حاصل کرنے میں معاونت فراہم کرسکیں؟ جس پر جان کربی نے جواب دیا کہ 'میں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا جس سے ان رپورٹس کی تصدیق ہوتی ہو۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ پاکستان اس سرحد کے ساتھ موجود (دہشت گردوں کی) محفوظ پناہ گاہوں سے مشترکہ طور پر متاثر ہے اور وہ بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے ہم سب یہاں مشترکہ طور پر مدد کر رہے ہیں، یعنی ایک دوسرے کو اس کا شکار اور حملوں سے بچنے میں مدد کرنا۔'
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے پاکستان کے زیر اثر ہونے کے تاثر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، جس سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھی اتفاق کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’طالبان پر ان کے ملک کے اثر و رسوخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، تاہم تین ملین افغان مہاجرین کے لیے پاکستان کی پالیسی مناسب حد تک نرم ہے۔‘
چین نے سفارت خانہ کھلا رکھنے، امداد میں اضافے کا وعدہ کیا: طالبان
طالبان نے کہا ہے کہ چین نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ کھلا رکھنے اور ملک کے لیے امداد میں اضافہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ دوحہ میں سیاسی دفتر کے رکن عبد السلام حنافی نے فون پر چینی نائب وزیر داخلہ وو جیانگاو سے بات کی۔
ترجمان کے مطابق: ’چینی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ کابل میں اپنا سفارت خانہ بحال رکھیں گے اور ماضی کے مقابلے میں تعلقات میں بھی اضافہ ہوگا۔‘
ترجمان کے مطابق چین نے امداد میں اضافہ کرنے کا بھی وعدہ کیا، خاص طور پر کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے۔
2/3
they would maintain their embassy in Kabul, adding our relations would beef up as compared to the past. Afghanistan can play an important role in security and development of the region. China will also continue and increase its humanitarian assistance
— Suhail Shaheen. محمد سهیل شاهین (@suhailshaheen1) September 2, 2021
چین کی جانب سے اس کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
بینجگ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے تاہم چین کئی بار امریکہ پر افراتفری میں کیے جانے والے انخلا کے حوالے سے تنقید کر چکا ہے۔
وہ یہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ طالبان کے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ ’دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات‘ چاہتا ہے۔
کابل میں چینی سفارت خانہ اب بھی فعال ہے مگر بیجنگ نے چینی شہریوں کو کچھ ماہ پہلے ہی افغانستان سے نکالنا شروع کر دیا تھا۔
افغانستان کے منجمد اثاثے
بائنڈن انتظامیہ طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد منجمد کیے جانے والے امریکہ میں موجود اربوں ڈالر مالیت کے افغان سونے، سرمایہ کاری اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بحال کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رہی۔
امریکی وزارت خزانہ کے ایک ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ محکمہ طالبان پر عائد پابندیاں ختم نہیں کر رہا اور نہ ہی عالمی مالیاتی سسٹم تک رسائی پر عائد پابندیوں میں نرمی لا رہا ہے۔
افغان سینٹرل بینک کے 10 ارب ڈالر کے اثاثے بیرون ملک ہیں۔ یہ مغربی ممالک کے لیے طالبان پر انسانی حقوق کا احترام کرنے اور امن و امان بنائے رکھنے کا دباؤ بڑھانے کا اہم ذریعہ ہوسکتے ہیں۔
مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اثاثوں کو بحال کرنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ادارے طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد پیدا ہونے والے انسانی بحران کا عندیہ دے چکے ہیں، جبکہ امریکی وزارت خارجہ، وزارت خزانہ اور قومی سلامتی کونسل کے درمیان بھی افغانستان کے مالی حالات پر ملاقاتیں جاری ہیں۔
ان اثاثوں کی بحالی کا فیصلہ صدر جو بائیڈن اور اعلیٰ عہدیدار ہی کریں گے۔