خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں خواتین کے ووٹوں کے اندراج کی کمی کو پورا کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے نادرا کے ساتھ مشترکہ مہم شروع کر دی ہے۔
جن علاقوں میں خواتین کے ووٹوں کی شرح مردوں کی نسبت کم ہے وہاں نادرا کی موبائل گاڑی گھر گھر جا کر خواتین کے شناختی کارڈ بنوا رہی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق خیبر پختونخوا میں خواتین کے ووٹوں کی شرح محض 12 فیصد ہے۔ یہ رجسٹریشن ڈرائیو اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے۔
عمرزئی یخ کورونہ میں اس موبائل میں کام کرنے والے اہلکار محمد اویس نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلع چارسدہ یہ پراجیکٹ جنوری 2023 تک جاری رہے گا۔
ان کے مطابق نادار کے اہلکار ضلع کے مختلف علاقوں میں جا کر پہلے سروے کرتے ہیں اور وہاں دیکھتے ہیں کہ کتنی خواتین کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا، پھر اسی حساب سے علاقے میں موبائل رجسٹریشن گاڑی بھیج دی جاتی ہے۔
محمد اویس نے کہا کہ ان علاقوں میں بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہےکہ خواتین کو گھروں سے نادرا آفس جانے کی اجازت نہیں ہوتی تو اس وجہ سے ہم کوشش کرتے ہیں کہ یہ سہولت ان کو ان کے گھر کی دہلیز پر ہی مل جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ تحصیل تنگی اور تحصیل شبقدر میں تقریباً 70 فیصد کام مکمل کر دیا گیا ہے جبکہ محلقہ قبائلی علاقوں میں بھی جلد کام شروع ہوگا تاکہ بلدیاتی انتخابات سے پہلے ہی خواتین ووٹروں کا اندراج ہوجائے اور وہ ووٹ کا حق استعمال کر سکیں۔
ان کے مطابق خواتین کے شناختی کارڈ بنوانے کا مرکزی مقصد ووٹ کا اندراج ہے، لیکن اس کے علاوہ شناختی کارڈ سے خواتین احساس پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا کفالت پروگرام جیسی سہولیات سے بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
مرزئی کے علاقہ یخ کورنہ میں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے آئی ہوئی ایک 55سالہ خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لاوڈ سپیکر پر نادرا کی گاڑی کے اعلان سن کر وہ شناختی کارڈ بنوانے آئیں۔
نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علاقے میں خواتین کو گھر سے باہر جانے یہ نادرا کے دفاتر کے چکر لگانے میں تکلیف ہوتی ہے تو اس طرح کی موبائل سروس فائدہ مند ہوتی ہے۔
چارسدہ میں الیکشن کمیشن اور نادرا کے ساتھ خواتین کی رجسٹریشن کرنے میں تعاون کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پیمان کی سعیدہ نے کہا 2018 کے انتخابات میں چارسدہ میں 52 پولنگ سٹیشن ایسے تھے جہاں ہے خواتین کا ٹرن آوٹ تیس فیصد سے بھی کم تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پراجیکٹ کا مقصد خواتین کے شناختی کارڈ بنوانا ہے تاکہ وہ ووٹ بھی دے سکیں اور ساتھ ساتھ خواتین کے لیے حکومتی مراعات کا فائدہ بھی اٹھا سکیں۔