سندھ کے محکمہ تعلیم نے صوبے بھر میں 1972 کے ایک قانون کے تحت تمام سرکاری اور نجی تعلمی اداروں میں سندھی زبان مکمل طور پر نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے بتایا کہ سندھ اسمبلی نے 1972 میں ایک قانون ’سندھ ٹیچنگ، پروموشن اینڈ یوز آف سندھی لینگویج بل‘ منظور کیا تھا جس کے تحت سندھ اسمبلی کی کارروائی، سرکاری دفاتر، پولیس، عدالتوں اور دیگر تمام محکموں کی دفتری زبان سندھی ہوگئی اور ان محکموں میں سندھی زبان میں خط و کتابت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ صوبے کے تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں بھی سندھی زبان چوتھی جماعت سے بارہویں جماعت تک لازم قرار دی گئی۔
سید سردار شاہ کے مطابق ’اس قانون پر بڑے عرصے تک اچھی طرح عمل درآمد ہوا، مگر بعد میں تعلیمی اداروں خاص طور پر صوبے کے نجی تعلیمی اداروں نے سرکاری طور پر لازم قرار دیے جانے والی سندھی زبان کے مضمون کو بچوں کو پڑھانا بند کردیا۔‘
’اب محکمہ تعلیم نے ایک بار پھر تمام تعلیمی اداروں میں سندھی زبان کے لازمی مضمون کو پڑھانے والے قانون کو نافذ کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو تمام تعلیمی اداروں کا سروے کرے گی اور جو نجی ادارہ سندھی مضمون نہیں پڑھائے گا ان کی سرکار سے ساتھ رجسٹریشن ختم کی جائے گی۔‘
ایک سوال کے جواب میں سردار شاہ نے بتایا کہ سندھ میں نجی تعلیمی اداروں میں 32 لاکھ بچے رجسٹرڈ ہیں، جب کہ سرکار کے رجسٹرڈ نہ ہونے والے اداروں میں 17 یا 18 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔
ان کے مطابق: ’سندھی زبان کے لازمی مضمون والے قانون کو نافذ کرنے سے 50 لاکھ بچے سندھی سیکھیں گے۔ ان بچوں کے پڑھنے کے لیے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے پاس وافر مقدار میں کتابیں موجود ہیں اور اگر کیمبریج بورڈ والے تعلیمی ادارے سندھی زبان کا اپنا نصاب بنانا چاہیں تو محکمہ تعلیم سندھ کو کوئی اعتراض نہیں۔ مگر ہر صورت میں ہر تعلیمی ادارے کو سندھی زبان لازمی پڑھانا ہوگی۔‘
’سندھی پڑھانا ایک تکنیکی کام ہے اور اکثر سکول اور کالج کسی بھی استاد کو سندھی زبان پڑھانے پر مامور کردیتے ہیں۔ مگر اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو سندھی لینگوئج اتھارٹی کی مدد سے تربیتی کورس کرائیں گے تاکہ وہ بہتر طریقے سے سندھی زبان پڑھا سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سوال کے جواب میں سردار شاہ نے کہا کہ ’پڑوسی ملک بھارت کی 26 قومی زبانوں میں سندھی زبان بھی ایک ہے اور بھارت میں کسی بھی جگہ اگر کوئی بچہ سکول میں سندھی زبان پڑھنا چاہے تو سرکار اس سکول میں سندھی زبان کا استاد مقرر کرتی ہے تو ہم یہاں کیوں نہیں کرسکتے؟‘
تعلیمی ادارے کیا کہتے ہیں؟
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن سندھ کے صدر شیراز اکرم نے انڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’سندھ کے تمام سکولوں اور کالجوں میں شروع سے ہی سندھی زبان کا مضمون لازم ہے۔ اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سندھ، خاص طور پر کراچی میں کئی تعلیمی بورڈ ہیں، کیوں کہ یہ سب سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہیں، تو امتحانات میں سندھی کا پرچہ لازم ہوتا ہے اس لیے سب تعلیمی بورڈ سندھی کو لازمی مضمون کے طور پڑھاتے ہیں۔‘
’جیسا کہ میں نے بتایا کہ سندھ حکومت سے رجسٹرڈ تمام تعلیمی ادارے پابند ہیں، سوائے کیمبرج سسٹم والے تعلیمی اداروں کے، جن کے امتحانات میں سندھ حکومت کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کے امتحانات میں سندھی کا پرچہ بھی نہیں آتا تو وہ سندھی زبان کے مضامین کو پڑھاتے بھی نہیں ہیں۔ یہ صرف ان کا مسئلہ ہے۔‘
دوسری جانب کیمبرج سسٹم کے تحت چلنے والے ایک سکول کی ہیڈمسٹریس رقیہ بانو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کیمبرج سسٹم ایک تو مشکل ہے اور دیگر تعلیمی بورڈز کے مقابلے میں یہاں زیادہ مضامین ہوتے ہیں اس لیے کیمبرج والے سندھی نہیں پڑھاتے۔ اس کے علاوہ کیمبرج کے امتحانات بھی عالمی ادارے لیتے ہیں تو اس لیے سندھی زبان نہیں پڑھائی جاتی۔‘
’مگر اب محکمہ تعلیم سندھ نے ہمیں کہا ہے کہ سندھی لازمی پڑھائیں، تو اب ہم سندھی زبان کو لازمی قرار دے کر پڑھائیں گے۔‘
سندھ ٹیچنگ، پروموشن اینڈ یوز آف سندھی لینگویج بل کی تاریخ
1972 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ان کے کزن ممتاز بھٹو سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے جنہوں نے سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو کی حکومت نے تین جولائی 1972 کو ’سندھ ٹیچنگ، پروموشن اینڈ یوز آف سندھی لینگویج بل‘ سندھ اسمبلی میں پیش کیا جس کے مطابق صوبے کی سرکاری (دفتری) زبان صرف سندھی ہوگی، جسے بعد میں تبدیل کرکے سندھی سے اردو کو شامل کیا گیا تھا۔
بل اسمبلی میں پیش ہوتے ہی صوبے میں زبردست ہنگامے شروع ہوگئے اور پرتشدد ہنگاموں کے دوران کئی افراد ہلاک ہوئے۔