کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف گذشتہ ہفتے احتجاج کی کال دینے والی سندھ ایکشن کمیٹی میں شامل قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے پیر کو صوبے کے مختلف شہروں سے متعدد کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے ترجمان امیر آزاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’پولیس نے پیر کو سندھ کے مختلف شہروں بشمول سیہون، جامشورو، بدین اور تلہار سے مختلف قوم پرست جماعتوں کے 60 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو ہمیں اب تک موصول ہوئی ہے جبکہ گرفتار کارکنوں کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔‘
امیر آزاد کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں ان جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں سمیت کارکن اور ان جماعتوں کی طلبہ ونگز کے ارکان شامل ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں امیر آزاد نے کہا: ’بظاہر تو ان کارکنوں کو بحریہ مخالف احتجاج پر گرفتار کیا گیا ہے، مگر پولیس نے تاحال گرفتاری کی اصل وجہ نہیں بتائی ہے اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ ان کارکنوں کو کس کیس میں گرفتار کیا جارہا ہے۔‘
گرفتار ہونے والوں میں بحریہ ٹاؤن مخالف احتجاج میں شرکت کرنے والی سندھ کی قوم پرست جماعتوں سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی)، سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی)، جئے سندھ محاذ (جسم)، جئے سندھ قومی محاذ (جسقم)، قومی عوامی تحریک و دیگر قوم پرست تنظیموں کے رہنما اور کارکن شامل ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے کراچی میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مبینہ طور پر مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے مرکزی گیٹ پر احتجاج کیا گیا تھا۔
احتجاج کے بعد پولیس نے بحریہ ٹاؤن میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے الزام میں سندھ ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں سمیت بحریہ ٹاؤن کے خلاف سرگرم مقامی لوگوں اور ادیبوں پر دہشت گردی اور پاکستانی پرچم کی توہین کی دفعات کے تحت کراچی کے گڈاپ تھانے میں مقدمات درج کرکے کئی افراد کو گرفتار کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گرفتار ہونے والوں میں جئے سندھ قومی محاذ کے سربراہ صنعان قریشی بھی شامل تھے۔
قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا: ’پولیس نے پیر کو قومی عوامی تحریک کے ایک درجن سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کو مختلف شہروں سے گرفتار کیا ہے، جن میں میرپور خاص سے گرفتار ہونے والے مقصود بھرگڑی، ڈگڑی سے ارباب نوہانی اور ضلع بدین کے گولاڑچی سے گرفتار ہونے والے ڈاکٹر لال چند شامل ہیں۔‘
ایاز لطیف پلیجو کے مطابق: ’ہم ان گرفتاریوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، یہ گرفتاریاں جہموریت، سندھ اور سندھ کے لوگوں کے خلاف ایک سازش ہیں۔‘
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبے بھر سے پولیس نے 100 سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’گرفتار ہونے والے کارکنوں میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے 55 کارکن اور مرکزی رہنما شامل ہیں، جنہیں ٹھٹھہ، بدین، مٹھی، حیدرآباد، جامشورو اور دیگر شہروں سے گرفتار کیا گیا ہے۔ پارٹی کے مرکزی رہنماؤں اور میرے گھر کے سامنے متعدد پولیس موبائلیں کھڑی کی گئی ہیں تاکہ ہم باہر نکل کر کارکنوں کی گرفتاری پر احتجاج نہ کرسکیں۔‘
قادر مگسی نے مزید کہا: ’سندھ حکومت سمجھتی ہے کہ گرفتاریاں کرکے عوامی احتجاج کو دبا دیا جائے گا، مگر گرفتاریوں سے احتجاج میں شدت آئے گی۔ ہم 20 جون کو بدین، سجاول، ٹھٹھہ اور لاڑ کے دیگر اضلاع میں عوامی رابطہ مہم چلانے جارہے ہیں۔‘
دوسری جانب پیر کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں بجٹ پر ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران مقامی میڈیا کی جانب سے بحریہ ٹاؤن اور گرفتایوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ’پر امن احتجاج کی ہر کسی کو اجازت ہے، ہم کسی کو شک کی بنیاد پر گرفتار نہیں کر رہے‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ چھ لوگ رہا کیے گئے ہیں جبکہ کچھ لوگوں نے ضمانت لے لی ہے۔‘
مراد علی شاہ کے مطابق: ’ہم اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں کو فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے۔ میرا صرف یہ پیغام ہے کہ اگر آپ سڑکوں پر آکر پاکستان مخالف نعرے لگائیں گے تو آپ میں اور الطاف حسین میں کیا فرق ہے؟ سندھ حکومت جمہوری حکومت ہے اور ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔‘
دوسری جانب انڈپینڈنٹ اردو نے ایس ایس پی بدین شبیر سیٹھار سے رابطہ کرکے گرفتاریوں کا سبب جاننے کی کوشش کی، مگر انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
جب اس حوالے سے ترجمان آئی جی سندھ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے انہیں بحثیت ترجمان میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ گرفتاریوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اوپر سے احکامات ہیں‘ اور یہ کہہ کر انہوں مزید کوئی بات کرنے سے انکار کردیا۔