پاکستان کے صوبہ سندھ میں صحافیوں کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے سرکاری ملازمین کو صحافیوں اور میڈیا نمائندگان سے بات کرنے سے منع کر دیا ہے جس کے بعد انہیں ان کے کام میں مسئلے پیش آرہے ہیں، تاہم سندھ حکومت نے ایسی کسی پالیسی کی تردید کی ہے۔
کراچی میں ایک غیر ملکی نیوز ایجنسی سے منسلک صحافی عامر لطیف کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین اور افسران پر عائد ایسی پابندیوں کے باعث صحافیوں کے لیے صحافت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
اندپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’کسی بھی معلومات کی تصدیق یا اس پر سرکار کا موقف نہیں ملتا۔ اس لیے خبر کے باؤنس ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے۔‘
عامر لطیف نے بتایا کہ حال ہی میں وہ جنگلی حیات سے متعلق ایک معلوماتی خبر کرنا چاہ رہے تھے، مگر محکمہ جنگلی حیات کے افسر نے یہ کہہ کر ان سے بات کرنے سے انکار کردیا کہ انہیں صوبائی حکومت کی جانب سے سختی سے منع کیا گیا ہے کہ وہ میڈیا سے بات نہ کریں۔
عامر لطیف کے مطابق: ’کسی حساس معاملے پر یا کرپشن یا پھر کوئی ایسی خبر جس کے لیے کوئی سرکاری محکمہ سمجھے کہ یہ ان کے خلاف ہے، اس پر اگر کوئی بات نہ کرے تو بھی کچھ سمجھ میں آتا ہے، مگر ایک عام اور معمولی خبر حتیٰ کہ خبر اس محکمے کے کسی اچھے کام پر ہو اس پر بھی کوئی سرکاری افسر بات نہ کرے تو یہ عجیب ہے۔‘
دو سال قبل سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے علاقے رتودیرو میں بڑی تعداد میں ایچ آئی وی کے کیس رپورٹ ہونے کے بعد محکمہ صحت سندھ کی جانب سے حال ہی میں رتودیرو میں ایچ آئی وی کی تشخیص، علاج اور مریضوں کی رجسٹریشن اور بڑوں، بچوں اور خواتین کو ایک ہی چھت کے نیجے سہولیات دینے والا پاکستان کا پہلا اور واحد مرکز قائم کیا گیا۔
اس مرکز کے متعلق جب انڈپینڈنٹ اردو نے خبر کرنا چاہی تو اس مرکز کے انچارج ڈاکٹر ٹیگ بہادر نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کردیا کہ انہیں ڈائریکٹر ہیلتھ سندھ ڈاکٹر ارشاد میمن نے میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا ہے۔
واضح رہے کہ سندھ حکومت نے دسمبر 2019 میں ایک سرکاری نوٹیفکیشن جاری کرکے ’سندھ گورنمنٹ رولز آف بزنس 1986‘ قانون کی شق 56 کا حوالہ دیتے ہوئے تمام صوبائی ملازمین، افسران اور پولیس کو کسی بھی موضوع پر میڈیا سے بات چیت کرنے سے سختی سے روک دیا تھا۔ سندھ میں اب سرکاری افسران اس نوٹیفکیشن کا حوالہ دے کر میڈیا سے بات چیت نہیں کرتے۔
نہ صرف سندھ حکومت بلکہ وفاقی حکومت نے بھی اپنے محکموں کے افسران کو میڈیا سے بات کرنے سے روک دیا ہے۔ گذشتہ ہفتے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کے سیکرٹریوں اور صوبائی چیف سیکرٹریوں کو ایک مراسلہ جاری کرتے ہوئے 23جولائی 2020 کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کیے گئے سرکلر کا حوالہ دے کر ہدایت کی کہ گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964 کے تحت سرکاری ملازمین مختلف میڈیا فورمز بشمول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں شرکت نہیں کرسکتے۔
ان رولز کے تحت کوئی سرکاری ملازم حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی بھی میڈیا پلیٹ فارم استعمال نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ اسی قانون کے رول 18 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ کوئی گورنمنٹ سرونٹ سرکاری انفارمیشن کسی دوسرے ایسے گورنمنٹ سرونٹ، پرائیوٹ فرد یا پریس کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا جو اس انفارمیشن کی وصولی کا مجاز نہ ہو۔
کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا پر ذاتی اکاؤنٹ چلانے اور میڈیا سے بات چیت پر پابندی عائد کرنا آمریت والی سوچ ہے۔ جیسے سابق فوجی آمر ضیا کی آمریت کے دوران حکومتی ہدایت پر ریستورانوں میں لکھا جاتا تھا کہ سیاسی گفتگو کرنا منع ہے، یہ نئے احکامات آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’پی ٹی آئی کی حکومت خود سوشل میڈیا کے باعث طاقتور بن کر حکومت میں آئی اور اب سوشل میڈیا پر ہی پابندی عائد کررہی ہے۔ پاکستان میں سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آکر اپنے پرانے منشور کو بھول جاتی ہیں۔ یہ چین کا ماڈل لانا چاہ رہے ہیں، جس میں صرف ایک پارٹی کی حکومت ہو اور اگر کوئی بات بھی کرے تو وہ حکومت کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق کرے۔ اس طرح سماج میں گھٹن جیسا ماحول ہوگا۔ ایسی پابندیاں فوراً ختم کرنا ہوں گی۔‘
صحافی اور تجزیہ کار مظر عباس نے کہا: ’سندھ حکومت یا وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازموں پر پریس سے کسی بھی معاملے پر بات کرنے پر پابندی عائد کرنے سے افواہوں کا بازار گرم ہوجائے گا، اور یہ فیک نیوز کے بڑھنے کا سبب بنے گا۔ اگر ایک صحافی کے پاس کوئی معلومات ہیں اور وہ انہیں سرکاری ملازمین یا افسران سے کنفرم کرنا چاہتا ہو اور کوئی بھی سرکاری افسر بات نہ کرے تو صحافی کیا کرے گا؟‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگر یہ پابندیاں لگائی گئیں تو پھر سرکار کو یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ فلاں خبر ان کے خلاف چلی اور ان سے ان کا موقف بھی نہیں لیا گیا۔ پریس سے بات تو کرنا ہوگی۔ ایسی پابندی مناسب نہیں ہے۔‘
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے کہا کہ آزادی اظہار کو نہیں روکا جا رہا۔ ’ 2019 میں پولیس کی اعلیٰ قیادت اور سندھ حکومت کے درمیاں تنازعے کے پس منظر میں کچھ پولیس افسران کی جانب سے بار بار میڈیا کو بیان دینے اور تنازعے کو بڑھانے کے بعد ایسا نوٹیفکیشن عارضی طور پر جاری کیا گیا تھا جو اب ختم ہوچکا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’سندھ حکومت کے تمام ملازمین اور افسران میڈیا سے بات کرسکتے ہیں۔ سوائے انتہائی حساس نوعیت کی معلومات یا پھر محکمے کی رازداری والی معلومات کو چھوڑ کر عام معلومات کے متعلق میڈیا سے بات کرسکتے ہیں۔ مگر کچھ افسران ذاتی حیثیت سے اس پرانے نوٹیفکیشن کا حوالہ دے کر بات نہیں کرتے تو یہ غلط ہے۔‘
سندھ حکومت نے تین سال قبل سندھ میں عام لوگوں اور صحافیوں کو سرکاری معلومات تک رسائی دینے کے لیے رائٹ ٹو انفارمیشن اتھارٹی بنانے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کو ملازمت دی، مگر تین سال گزرنے کے باجود وہ اتھارٹی نہیں بن سکی۔
اس سلسلے میں عبدالرشید چنا سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا: ’وہ اتھارٹی کچھ مصلحتوں کے باعث تاحال نہیں بن سکی ہے۔ مگر اگر یہ بن بھی گئی تو اس کے طریقہ کار میں معلومات لینے میں تین سے چار دن لگ جائیں گے، اس میڈیا کے تیز دور میں اتھارٹی بن بھی گئی تو میڈیا کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘