لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل نہ کر سکیں اور ان کی تقرری کا معاملہ چار، چار ووٹ سے برابر رہا۔
سپریم کورٹ میں مقررہ 17 ججز میں سے جسٹس مشیر عالم کی 17 اگست کو ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہونے والی نشست پر جسٹس عائشہ اے ملک کی نامزدگی ہوئی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جسٹس عائشہ اے ملک کا نام تجویز کیا، جس پر جسٹس عائشہ نے بھی رضا مندی کا تحریری طور پر اظہار کیا۔
جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں منعقد ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے پر غور ہوا اور یہ معاملہ چار، چار سے ٹائی ہوگیا۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل خوشدل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز، وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سمیت سابق جج سپریم کورٹ دوست محمد اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے شرکت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے علاج کی غرض سے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہ ہو سکے جبکہ جسٹس مقبول باقر نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس کے دوران لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کی بطور جج سپریم کورٹ تقرری پر غور کیا گیا، تاہم معاملہ چار، چار ووٹ سے برابر رہا اور جسٹس عائشہ ملک کوجوڈیشل کمیشن سے منظوری نہ مل سکی جس کی وجہ سے وہ سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل نہ کر سکیں۔
جسٹس عائشہ ملک کا لاہور ہائی کورٹ کی سینیارٹی لسٹ میں چوتھا نمبر ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے پر وکلا نے بھی احتجاج کیا۔
مختلف بار کونسلز کا مؤقف تھا کہ ججوں کی تعیناتی میں سینیارٹی اصول مدنظر نہیں رکھا گیا۔
’سخت اور با اصول جج‘
عائشہ اے ملک لاہور ہائی کورٹ کی سخت اور بااصول جج سمجھی جاتی ہیں اور وہ بڑے بڑے فیصلے قانون کے مطابق کرکے اپنی قابلیت پہلے ہی منوا چکی ہیں۔
عائشہ اے ملک کی عدالت میں مقدمات کی پیروی کے لیے پیش ہونے والی وکیل آمنہ وارث نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں جسٹس عائشہ اے ملک کے حوالے سے بتایا کہ وہ ہائی کورٹ کے ان ججز میں سے ہیں جو مرد و خواتین وکلا، گواہان یا سائلین کو کسی غلطی، کیس کی تیاری یا یونیفارم بہتر نہ ہونے پر ڈانٹنے کی بجائے تحمل سے سمجھاتی ہیں۔
بطور جج عائشہ اے ملک اب تک کئی اہم مقدمات کے فیصلے سنا چکی ہیں۔ جیسا کہ خواتین کا کنوارہ پن جانچنے کے لیے ’ٹو فنگر ٹیسٹ‘ کا مقدمہ، جس میں انہوں نے اسے نامناسب اور خواتین کے لیے تکلیف دہ مرحلہ قرار دے کر ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسی طرح محکمہ انسداد دہشت گردی میں جب خواتین کی تعیناتی سے معذرت کی گئی اور پولیس حکام نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں خواتین کا حصہ لینا ان کے لیے مشکل ہے تو جسٹس عائشہ اے ملک نے اس کیس میں خواتین کو بھرتی کرکے دفتری امور پر تعینات کرنے کا حکم سنایا اور قرار دیا کہ صنفی امتیاز پر خواتین کو نوکریوں سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ ملک کے بڑے مقدمات جیسے پی ٹی آئی رہنما کی درخواست پر شوگر ملز جنوبی پنجاب کے کاٹن بیلٹ میں منتقل کرنے سے روکنے کا حکم، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی نیب کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری منظور ہونے کے بعد دونوں ججز نے اختلافی فیصلہ دیا تو اس لارجر بینچ میں جسٹس عائشہ اے ملک بھی شامل تھیں، جس نے شہباز شریف کی چند ماہ پہلے ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم سنایا تھا۔
تعلیمی قابلیت اور بطور قانون دان تجربہ
لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق 1966 میں پیدا ہونے والی جسٹس عائشہ اے ملک نے اپنی بنیادی تعلیم پیرس اور نیویارک سے حاصل کی اور کراچی گرامر سکول، کراچی سے سینیئر کیمبرج کیا۔
اس کے بعد انہوں نے لندن میں فرانسس ہالینڈ سکول فار گرلز سے اے لیول کیا، گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس کراچی سے بی کام اور لاہور کے پاکستان کالج آف لا سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔
عائشہ اے ملک ہارورڈ لا سکول، کیمبرج، میساچوسٹس، امریکہ سے ایل ایل ایم کرنے چلی گئیں جہاں انہیں شاندار قابلیت کے لیے لندن ایچ گیمن فیلو 99-1998 کا نام دیا گیا۔
اس کے بعد 2001-1997 کے دوران انہوں نے فخرالدین جی ابراہیم اینڈ کمپنی کراچی کے ساتھ کام کیا جہاں انہوں نے سینیئرقانون دان فخرالدین جی ابراہیم کے ساتھ بطور اسسٹنٹ وکیل بھی کام کیا۔
2004 میں لا فرم کے لاہور آفس کی انچارج اور کارپوریٹ اینڈ لیگیشن ڈپارٹمنٹ کی سربراہی کی۔
انہوں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور کے شعبہ ماسٹرز آف بزنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیکچرر کی حیثیت سے قانون کی تعلیم دی۔ وہ مرکنٹائل لا، کالج آف اکاؤنٹنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز، کراچی کی لیکچرر بھی رہیں۔
عائشہ اے ملک ہائی کورٹس، ضلعی عدالتوں، بینکنگ کورٹ، سپیشل ٹریبیونل اور ثالثی ٹریبیونل میں پیش ہوچکی ہیں۔ انہیں انگلینڈ اور آسٹریلیا میں خاندانی قانون کے معاملات میں ماہر گواہ کے طور پر بھی بلایا گیا، جس میں بچوں کی تحویل، طلاق، خواتین کے حقوق اور پاکستان میں خواتین کے آئینی تحفظ کے مسائل شامل ہیں۔
وہ غربت کے خاتمے کے پروگرامز، مائیکرو فنانس پروگرامز اور مہارتوں کے تربیتی پروگرامز میں شامل این جی اوز کے لیے مشیر بھی رہ چکی ہیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی 50 ویں سالگرہ کے موقعے پر شائع ہونے والے پاکستان کالج آف لا کے 1956-2006 کے منتخب مقدمات کو بھی مرتب کیا۔
وہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی اشاعت، گھریلو عدالتوں میں بین الاقوامی قانون پر آکسفورڈ رپورٹس کے لیے پاکستان کی رپورٹر رہی ہیں۔
جسٹس عائشہ اے ملک کی نامزدگی پر ردعمل
پاکستان بار کونسل اور لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے ان کی نامزدگی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، جس میں دیگر تین ججز کو ’نظر انداز‘ کرکے چوتھی سینیئر جج کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے پر تنقید کی گئی تھی۔
پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین خوشدل خان کا کہنا تھا کہ جسٹس عائشہ اے ملک کی ترقی سے نہ صرف چیف جسٹس سمیت ان سے سینیئر لاہور ہائی کورٹ کے ججز بلکہ دیگر ہائی کورٹس کے سینیئر ججز بھی نظر انداز ہوئے ہیں۔
خوشدل خان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کی نامزدگیوں سے سینیئر ججز کی کارکردگی متاثر ہوگی۔‘
لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر مقصود بٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ججز کی اعلیٰ عدلیہ میں سینیارٹی کے مطابق ترقیوں کے حامی ہیں لیکن سینیئر ججوں کو نظرانداز کرکے تقرریوں سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔‘
مقصود بٹر نے کہا کہ وہ جسٹس عائشہ اے ملک کی خاتون ہونے کی وجہ سے تقرری کے مخالف نہیں بلکہ میرٹ پر تقرری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
’وہ اگر سینیارٹی کے لحاظ سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی جج بنیں گی تو وکلا ان کی حمایت کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی سابق خاتون جج لاہور ہائی کورٹ فخر النسا کھوکھر کو خاتون ہونے کی وجہ سے سینیئر ججز کو نظرانداز کرکے ترقی دی گئی تھی، اس کے بعد عدالتی نظام میں کافی مسائل پیدا ہوئے تھے، لہذا عدالتی نظام کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے ججز کی سینیارٹی کے اصول پر ہی تقرریاں ناگزیر ہیں۔
دوسری جانب سابق لاہور ہائی کورٹ کی جج ناصرہ جاوید اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا: ’کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں پہلی بار سپریم کورٹ میں ایک خاتون جج کو تعینات کیا جا رہا ہے اور ان کی مخالفت کی جا رہی ہے۔‘
ناصرہ جاوید اقبال کے بقول: ’اس ملک میں خواتین کی آبادی کا تناسب مردوں سے زیادہ ہے اور ان کے مسائل سننے کے لیے اس سے پہلے سپریم کورٹ میں ایک بھی خاتون جج تعینات نہیں کی جاسکی جبکہ مغرب کے علاوہ ہمسایہ ملکوں بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا میں بھی سپریم کورٹ میں خواتین ججز تعینات ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’خواتین کے مسائل جیسے طلاق، حق مہر، زیادتی، ہراسمنٹ، جائیداد میں حصہ، ان مقدمات کو خاتون جج ہی بہتر انداز میں سمجھ سکتی ہے اور انصاف دے سکتی ہے، مرد ججز ان مقدمات میں اس طرح محسوس نہیں کر سکتے، جس طرح ایک خاتون دوسری خاتون کے مسائل سمجھ سکتی ہے۔‘