اکثر خواتین اپنی شکل و صورت یا جسمانی بناوٹ کو لے کر کسی نہ کسی کمی کا ذکر کرتی نظر آتی ہیں۔ محض چار یا پانچ فیصد لوگ ایسے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خوبصورت ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر کا تعلق بیوٹی انڈسٹری سے ہوتا ہے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی فیمینسٹ، سوشلسٹ اور وکیل جلیلہ حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کے لیے اس ویڈیو بلاگ میں اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح خواتین خوبصورتی کے حصول کے لیے کاسمیٹکس انڈسٹری کا سہارا لیتی ہیں۔
جلیلہ کے مطابق کاسمیٹکس انڈسٹری کی آمد سے قبل حسن کے حوالے سے لوگوں کا تجربہ و تجزیہ بالکل الگ تھا، لیکن پھر وقت بدلنے کے ساتھ جہاں گورا رنگ اور زیرو فگر خوبصورتی کی علامت ٹھہرا، وہیں خواتین بھی احساس کمتری میں مبتلا ہوکر مختلف سرجریوں اور ادویات کے پیچھے بھاگنے لگیں، جس کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی صحت پر پڑتا ہے۔
جلیلہ کے بقول پدر شاہی نظام کی پیداوار کاسمیٹکس انڈسٹری خوبصورت بنانے کے لوازمات تو ضرور فروخت کرتی ہے لیکن یہ انڈسٹری بذات خود ایک بدصورت اور بھیانک کاروبار ہے۔