نائن الیون حملے کے نتیجے میں جہاں ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتر گئے اور 40 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا وہیں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاوروں کے گرنے کے صدمے نے چند ماہ کے اندر نیویارک شہر میں بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں اور صفائی کے انتظامات کا رستہ ہموار کیا۔
تباہ کن حملے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر تشکیل دی گئی رضاکاروں، فائر فائٹرز، پولیس اور سراغ رساں کتوں پر مشتمل ٹیم کو پہلے دن 21 افراد زندہ ملے لیکن اس کے بعد انہیں ایک بھی زندہ شخص نہیں ملا۔
فلک بوس عمارتوں کے ملبے کے اندر سے انتہائی جانفشانی کے ساتھ انسانی جسم کے بکھرے ہوئے 21 ہزار 900 ٹکڑے اکٹھے کیے گئے۔
فرانزک تحقیق کا یہ تکلیف دہ مرحلہ امریکی نفسیات پر اپنے پراسرار مضر اثرات اور آفٹر شاکس کے ساتھ آسیب کی طرح منڈلاتا رہے گا۔
حکام نے ٹاور کا ملبہ منتقل کرنے کے لیے سٹیٹن جزیرے کا انتخاب کیا جہاں اس میں سے بچے کھچے انسانی اعضا کی تلاش اور انہیں نکالنے کا عمل سرانجام پانا تھا۔
تمثیلی انداز میں ’فریشکلز‘ کہلائے جانے والا یہ مقام نیویارک شہر کے مضافات میں واقع ہے جو 1948 سے نیو یارک شہر کے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کی بنیادی ترین جگہ رہا ہے۔
نیو یارک شہر کے میئر روڈی جولیانی کے بقول کچھ عرصے بعد ہی یہ ’دنیا کا سب سے بڑا کوڑا گھر بن گیا۔
بہت جلد یہ کوڑاگھر امریکی تاریخ کی مہنگی ترین فرانزک تحقیق کا مقام بن گیا جس میں شکستہ ہڈیوں کے ڈی این اے کی شناخت اور مختلف اجسام کا الگ الگ شماریاتی تجزیہ شامل تھا۔
لیکن محقیقن پگھلے ہوئے کمپیوٹروں، کیمیائی عمل سے تباہ شدہ سٹیل، ٹوٹے ہوئے شیشے، راکھ اور گرد و غبار کے اندر سے انسانی باقیات منظم طور پر شناخت نہیں کر سکے اور نہ ہی انہیں چھانٹ کر الگ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
فریش کلز ناقابلِ شناخت اجسام کا قبرستان بن گیا۔ کچرے کا بلند و بالا ڈھیر سراغ رسانی کے رستے میں مزید رکاوٹ یوں بنا کہ اس مقام پر کام کرنے والے افراد کو زہریلے بخارات نقصان پہنچانے لگے۔
مین ہٹن میں تعمیراتی عملے، طبی ماہرین اور دیگر افراد کو آلودگی سے واسطہ پڑا اور وہ حملے کے بعد خطرناک بیماریوں کا شکار ہونے لگے جس سے شرحِ اموات میں اچانک اضافہ ہو گیا۔
ہزاروں ٹن مسمار شدہ کنکڑیٹ، تعمیراتی سامان، سیلولوز، ایسبیوٹوس، سیسہ، مرکری اور جلنے سے خارج ہونے والی گیسوں کی وجہ موقع واردات پر امدادی کارروائیوں کے لیے پہنچنے والے کارکنوں میں گردوں، دل، جگر اور چھاتی کے سرطان جیسی بیماریوں کے خطرات میں فوری طور پر اضافہ ہو گیا۔
فوراً امدادی کارروائیوں کے لیے پہنچنے والے افراد میں سے جو زندہ بچ رہے تھے انہوں نے کارکنان کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہوئے نیویارک سٹی انتظامیہ کے خلاف درخواست دائر کر دی کہ وہ انہیں گراؤنڈ زیرو پر مناسب حفاظتی آلات مہیا کرنے میں ناکام رہی، پورا عشرہ گزر گیا تب جا کر کہیں انہیں طبی سہولیات مہیا کرنے کے لیے نائن الیون ہیلتھ اینڈ کمپنسیشن ایکٹ وجود میں آیا۔
تکلیف اور منافع
اگرچہ یہ مقام صحت کے لیے شدید نقصان دہ سمجھا گیا لیکن برج کی عمارت میں لگے سٹیل کا معاملہ مختلف رہا۔
دھات کے کباڑ خانوں نے یہ ملبہ خریدا اور منافع کے بدلے بھارت اور چین کی استعمال شدہ دھات خریدنے والی مارکیٹ میں بیچ دیا۔
نیویارک سٹی کے محکمہ صفائی سے معاہدے کے بعد ملبے کو قابل استعمال بنانے والی ایک کمپنی نے فریش کلز کے مقام سے یہ سٹیل خریدا اور آتشیں آلات کی مدد سے کاٹ لیا۔
اس کے علاوہ ایک اور کمپنی شنگھائی باوسٹیل گروپ نے پچاس ہزار ٹن تعمیراتی شہتیر خریدے جو نیویارک سٹی نے 120 ڈالرز (87 پاؤنڈ) فی ٹن کے حساب سے بیچے۔
گرین پیس کی ملبے کو برآمد کرنے کے اقدام کو خطرناک قرار دینے اور ’گلوبل ساؤتھ‘ میں اسے دوبارہ استعمال کرنے پر پابندی لگانے کی ابتدائی اور ناکام کوشش بھی کچھ اثر نہ کر سکی اور اس حادثے کے محض چھ ماہ کے اندر سٹیل بھارت پہنچ گیا۔
بھارت کے بہت سے شہروں میں ان جڑواں برجوں کے سٹیل سے عمارات بنائی گئیں جن میں ایک کالج، گاڑیوں کی ورکشاپ، محرابی راستے، آرکیڈز اور ایک تجارتی مرکز شامل ہے۔
بھارت میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ملبہ کہاں کہاں کھپایا گیا؟
(بھارتی ویب سائٹ ریڈ اف کی ایک رپورٹ سے اخذ شدہ)
ملاپورم، کیرالا میں تعمیر کیے گئے کالج، کوئمبٹور، تمل ناڈو کی کار ورکشاپ اور لدھیانہ، پنجاب کے ٹیکسٹائل شو روم میں کون سی چیز مشترک ہے؟
ان سب میں 11 ستمبر 2001 کو دہشت گردی کے حملوں میں زمین بوس ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز کا سٹیل استعمال ہوا ہے۔
صرف یہ کالج نہیں بلکہ بھارت کے بہت سے شہروں میں کئی عمارتوں کے اندر نیو یارک کے مسمار شدہ برجوں کا بچا کھچا سٹیل استعمال کیا گیا۔
شمالی کیرالا کے ضلع ملاپورم کے شہر نیلامبور میں قائم کوآپریٹو کالج کی عمارت کی مثال لے لیجیے۔ کالج کی یہ عمارت ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا سٹیل استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی۔
اس عمارت کا ڈیزائن وضع کرنے اور تعمیر کرنے والے انجینیئروں کے مطابق اس میں چار انچ کی چوڑائی اور آٹھ فٹ کی لمبائی والی تقریباً 180 سلاخیں استعمال کی گی۔
تعمیراتی ٹیم کے ایک رکن کے روی کہتے ہیں ’وہ واقعی بہت مضبوط سلاخیں تھیں۔ معیار شاندار تھا اسی لیے ہم نے انہیں استعمال کیا۔ دراصل ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی باقیات میں سے ہیں۔‘
کالج کے تعمیراتی منصوبے کے انچارج سول انجینیئر نے یہ فولادی سلاخیں ملاپورم کی ایک انجینرنگ کمپنی رالکو سے خریدیں۔
اپنا نام خفیہ رکھنے کے ضمانت پر رالکو سے وابستہ وہ سول انجینیئر بتاتے ہیں کہ کمپنی نے یہ سلاخیں ایک انجینیئرنگ کنسٹرکشن ڈیلر سے خریدیں جنہوں نے آگے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے درآمد کر رکھی تھیں۔
وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں ’ہم نے ملبے کے کئی ٹرک خریدے اور انہیں کیرالا اور تمل ناڈو کے بہت سے ایسے مقامات پر سپلائی کیا جہاں تعمیرات کا سلسلہ جاری تھا۔
رالکو نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ملبہ اس لیے خریدا کہ سلاخوں کا معیار بہت عمدہ تھا۔
انجینیئر مزید گویا ہوئے ’ہم نے دیکھا کہ اس کا تو بہت عمدہ معیار ہے۔ کیوں کہ یہ استعمال شدہ تھا اس لیے قیمت بھی کم تھی۔ یہ محض پچیس روپے فی کلو کے حساب سے ملا جبکہ اگر آپ اسے مارکیٹ سے خریدیں تو دگنی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ‘
تعمیراتی کمپنی کے مینجر کے بقول گذشتہ چار برسوں کے دوران میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ملبہ نئی عمارتوں میں کثرت سے استعمال کیا گیا۔
کوئمبٹورمیں واقع ایپیکس کنسٹرکشنز کے پاٹنر ایلیکس کرویلا کہتے ہیں ان کی کمپنی نے یہ ملبہ کئی عمارتوں میں استعمال کیا۔
ان کے بقول ’ہم نے دوبارہ سے اسے قابل استعمال بنایا اور دیکھا کہ وہ اس جیسی انڈین مصنوعات سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ ‘
ایپیکس کنسٹرکشنز نے یہ سٹیل جن تعمیراتی منصوبوں میں استعمال کیا اس میں گاڑیاں کھڑی کرنے کا بڑا احاطہ، ایک اپارٹمنٹ، کوئمبٹور میں اور اس کے آس پاس بہت سے چھوٹے بڑے خریدداری کے مراکز شامل ہیں۔
اس حادثے کے محض چھ ماہ کے اندر تباہ شدہ برجوں کا باقی ماندہ سٹیل ٹنوں کے حساب سے بھارت پہنچا۔
کرویلا نے یہ پس ماندہ سٹیل چنائی کے ایک درآمد کنندہ صاباری ایگزم پرائیویٹ لمیٹڈ سے خریدا۔
نیو یارک کی ملبہ صاف کرنے والی کسی کمپنی سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی باقیات بھارت میں درآمد کرنے والی پہلی کمپنی صاباری تھی جس نے فی ٹن 120 ڈالرز (تقریباً چار ہزار چھ سو روپے) کے حساب سے خریدا۔
سٹیل تیار کرنے والی کمپنیوں کی صنعتی لابی انڈین سٹیل الائنس کے اندازے کے مطابق کوئمبٹور، چنائی، کولکتہ اور احمد آباد سے لے کر لدھیانہ تک مختلف ملبہ صاف کرنے والی کمپنیوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا تقریباً پچاس ہزار ٹن سٹیل خریدا۔
ڈیپارٹمنٹ آف ڈیزائن اینڈ کنسٹرکشن نے نیو یارک سٹاک ایکسچینج کو جلد از جلد دوبارہ کھولنے کے لیے فوری طور پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ملبہ صاف کرنے کے لیے پانچ تعمیراتی کمپنیاں قائم کیں۔
اس حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ نے اعتراض کیا کہ اداروں نے انسانی جسموں کی باقیات کو سنبھالنے میں کوتاہی سے کام لیا ہے۔
نامیاتی اور غیر نامیاتی ملبے کے ڈھیروں کے ڈھیر ادھر ادھر کر دئیے گئے اور بلدیاتی کچرے کے دیگر روایتی مآخذات کے ساتھ بلاامتیاز دفن کر دئیے گئے۔
مین ہٹن فیڈرل کورٹ کے سامنے 2007 میں پیش کیے گئے بیان حلفی سے منکشف ہوا کہ ملبے کے ساتھ پِس کر ’سفوف‘ کی شکل اختیار کر لینے والی باقیات کو مبینہ طور پر شہر کے انتظامی امور سے وابستہ سرکاری ملازمین نیو یارک کے گڑھے بھرنے اور رستے ہموار کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔
عمودی شکل میں کھڑے ایک نجی ٹاور کی باقیات افقی شکل میں پڑی عوامی سڑک کے شکستہ حصے بھرنے کے لیے استعمال ہوتی رہیں۔
اس حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ بلدیاتی انتظامیہ کی بدانتظامی کے خلاف عدالت میں چلے گئے جس پر انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا کہ درجہ بندی کے ایک پیچیدہ عمل کے ذریعے ملبے کی پہلے ہی اچھی طرح جانچ پڑتال ہو چکی تھی۔
آخر میں جج نے نیویارک سٹی کی انتظامیہ کا موقف تسلیم کر لیا۔ جج کے بقول ’ہلاک شدگان اپنے پیچھے کوئی نشان چھوڑ کر نہیں گئے، جو بظاہر تیز بھڑکتی آگ میں جل کر راکھ ہو گئے یا کنکریٹ اور سٹیل کے ٹنوں کے حساب سے گرنے والے بھاری بوجھ تلے پِس کر خاک ہو گئے۔ ‘
راکھ سے اٹھتی زندگی
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی بحالی کے نظام سے مرنے والوں کی موجودگی دھندلا گئی۔ 2008 سے کچرے کو ٹھکانے لگائے جانے والا مقام فریش کلز ،بتدریج ایک بلدیاتی تفریحی پارک کا روپ دھارنے لگا جس تک بائیک، کشتی یا گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر پہنچا جا سکتا ہے۔
ایک بار یہ مکمل ہو گیا تو اس کے وسیع رقبے کا پھیلاؤ مرکزی پارک کی نسبت تقریباً تین گنا زیادہ ہو جائے گا اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور کھیلوں کے مصنوعی میدان ہوں گے۔
انیسویں صدی کی دلدلی زمین فریش کلز آج ایک سرسبز پارک میں تبدیل ہو چکی ہے جس میں انسانی ساختہ مرطوب زمینی ٹکڑا بھی شامل ہے، جس کے گرد چاروں اطراف میں زیر زمین زہریلی گیسوں کو بند رکھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا نظام موجود ہے جس سے 20 ہزار مقامی گھروں کی توانائی کا بندوست ہوتا ہے۔
کچرے کو سنبھالتے ہوئے عوامی مفاد میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے اس کی واضح مثال نائن الیون کی کہانی میں موجود ہے جو بلاشبہ جدید گنجان آباد بڑے شہروں کی ثقافت تشکیل دیتی ہے۔
’کچرا‘ محض انسانی معاشرے کی ناپسندیدہ پیدوار نہیں بلکہ ترقی کے ایک متبادل راستے کا بھی سراغ دیتا ہے۔
جیسے ہی وال سٹریٹ میں دوبارہ زندگی کے آثار نمودار ہوئے سلورسٹین پروپرٹیز اور لوئر مین ہٹن ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی نگرانی میں دوبارہ تعمیرات کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں دفاتر کے لیے مخصوص چھ نئے برج بھی شامل تھے جن میں سب سے اونچا ون ورلڈ ٹریڈ سنٹر ہے۔
مال و دولت کی یہ مجموعی علامتیں تن کر کھڑی ہیں جو اقتصادی کارپوریشن کے ادارہ جاتی تسلسل کی ضمانت ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہرحال کچرے کو یکسر ختم کرنا، قابو پالینا یا حتی کہ اس کی مقدار کا درست اندازہ لگا لینا تو درکنار اسے نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں۔
2006 میں دھماکہ خیز مواد کے ذریعے زمین کی سخت تہہ کو پھاڑ کر بنیادوں کے لیے سازگار بنانے کا عمل شروع ہوا۔
جولائی 2010 میں یادگاری تعمیرگراؤنڈ زیرو کا سلسلہ اس وقت روکنا پڑا جب مٹی میں سے اٹھارویں صدی کی کشتی کی باقیات ملیں۔
اس کے بارے میں قیاس آرائی کی گئی کہ لکڑی کی کشتی کا ڈھانچہ خالی زمین کو بھرنے والے باقی ملبے میں شامل تھا اور اس بھرائی کا مقصد مین ہٹن کے جزائر کو دریائے ہڈسن تک وسیع کرنا تھا۔
تاریخی طور پر نیویارک نے اپنے تعمیراتی منصوبوں کے باقی ماندہ ملبے اور اپنی بندرگاہوں کے کباڑ کو مصنوعی زمین بنانے اور اپنے ساحلوں کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے۔
رئیل سٹیٹ کے ابھی تک موجود قیمتی برجوں کی طرح جڑواں برج بھی اصل میں لوئر مین ہٹن کی سابقہ لینڈ فِل پر تعمیر کیے گئے تھے جن کا راستہ کھنڈرات کے ایک قانون نے ہموار کیا تھا جس کے مطابق ’دارالحکومت کی بنیاد اس کےغیر ضروری ملبے پر ہی رکھی جاتی ہے۔‘
نوٹ: یہ آرٹیکل دا کنورسیشن کی اجازت سے چھاپا گیا ہے۔ اصل تحریر یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔