نور مقدم قتل کیس میں اسلام آباد پولیس نے عدالت میں جمع کرائے جانے والے عبوری چالان میں لکھا کہ اگر ذاکر جعفر بروقت پولیس کو اطلاع کر دیتے تو نور مقدم کا قتل بچ سکتا تھا اور ظاہر ذاکر کے والد نے قتل کے اس واقعے میں اپنے بیٹے کی مدد کی ہے۔
نور مقدم کیس میں پولیس نے نو ستمبر کو عدالت میں عبوری چالان پیش کیا تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو کے حاصل کردہ چالان کے مطابق ڈی این اے رپورٹ سے نور مقدم کا ریپ بھی ثابت ہو گیا ہے۔ چالان کے مطابق پولیس کے سامنے ظاہر جعفر نے قتل کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔
ابتدائی طور پر چالان چھ ستمبر کو پیش کیا گیا تھا لیکن اُس میں موجود تکنیکی غلطیوں کی وجہ سے چالان درست کرکے دوبارہ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں نو ستمبر کو پیش کیا گیا۔
عدالت نے مقدمہ سماعت کے لیے نو ستمبر کو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کو منتقل کیا تھا۔ ظاہر جعفر کا پولیس کو ریکارڈ کرایا گیا اعترافی بیان بھی چالان کا حصہ ہے۔
چالان میں ملزمان سے تفتیش اور ابتدائی بیانات کی روشنی میں مقدمے سے متعلق تمام تفصیلات درج ہیں۔
پولیس نے چالان میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت 12 ملزمان کے نام شامل کیے ہیں جو مرکزی ملزم کے سہولت کار تھے۔
اس کے علاوہ 18 گواہان کے نام شامل ہیں جو جائے وقوعہ پر پہنچے اور وہاں کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
اب یہ تمام گواہان مقدمے کی سماعت کے دوران اپنی گواہی عدالت میں دیں گے۔
یہ عبوری چالان ہے کیونکہ پولیس حکام کے مطابق انہیں ایک اور ڈی این اے رپورٹ کا انتظار ہے جسے ضمنی چالان کا حصہ بنایا جائے گا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے لیپ ٹاپ اورموبائل فون سے متعلق رپورٹ آنے پر ضمنی چالان داخل کرایا جائے گا۔
پہلی ڈی این اے رپورٹ میں قتل سے قبل مقتولہ کا ریپ ثابت ہو گیا ہے اور ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ ریپ ظاہر جعفر نے ہی کیا تھا۔
پولیس کے عبوری چالان کے مطابق ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم کو قتل کر کے سر دھڑ سے الگ کرنے کابیان دیا اور ملزم ظاہر جعفر نے انکشاف کیا کہ ’نور مقدم نے شادی سے انکار کیا تو میں نے اسے روک لیا اور جانے نہ دیا‘ جس پر نور اور ظاہر جعفر کی لڑائی ہوئی تھی۔
چالان کے مطابق نور مقدم نے ظاہر جعفر سے کہا کہ وہ پولیس کے پاس جاکر ان پر کیس کریں گی، انہیں بدنام کریں گی جس کے بعد ملزم نے انہیں زبردستی کمرے میں بند کر دیا۔ اور اُس کے بعد ملزم نے اپنے والدین کو بھی فون کر کے سب بتایا کہ انہوں نے نور کو اپنے گھر روک لیا ہے۔
چالان میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے چوکیدار کو کہا کہ گھر کے اندر نا کسی کو آنے دیں نا ہی نور مقدم کو باہر جانے دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک موقع پر نورمقدم واش روم سے چھلانگ لگا کر بھاگتی ہوئی گیٹ پر آئیں تو چوکیدار نے انہیں سہولت فراہم نہیں کی اور مالی جان محمد نے بھی انہیں گیٹ نہیں کھولنے دیا۔
پولیس نے لکھا ہے کہ اگر مالی گیٹ کھولنے دیتا تو نور مقدم باہرجا سکتی تھیں اور اُن کی جان بچ سکتی تھی۔
جس کے بعد ملزم ظاہر جعفر نیچے آ کر زبردستی نور کو گھسیٹتے ہوئے گھر کے اندر لے گئے۔
مالی اور چوکیدار کے علم میں تھا کہ اس گھر میں لڑکی کو زبردستی رکھا ہوا ہے پھر بھی انہوں نے اس بات کو مخفی رکھا اور ملزم کی اعانت کی۔
دوبارہ زبردستی اندر لے جانے کے بعد ملزم نے نور مقدم پر چاقو کے وار کیے اور انہیں قتل کرکے ان کا سر دھڑ سے الگ کر دیا اور ان کا موبائل دوسرے کمرے میں چھپا دیا۔
چالان میں لکھا گیا ہے کہ ملزم کا بیان ہے کہ جب انہوں نے اپنے والد کو قتل کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا ’گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہمارے بندے آ رہےہیں جو لاش ٹھکانے لگا کر انہیں وہاں سے نکال لیں گے۔‘
ملزم کے بیان کے مطابق تھراپی ورکس کے امجد محمود کے ساتھ غلط فہمی میں جھگڑا ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق تھراپی ورکس کے ملازمین نے ملزم کے اس فعل کو چھپانے اور شہادت ضائع کرنے کی کوشش کی۔
تھراپی ورکس کے زخمی ملازم امجد نے وقوعہ کا اندراج بھی نہیں کرایا اور میڈیکل سلپ میں روڈ ایکسیڈنٹ درج کرایا۔
جبکہ ڈی وی آر میں محفوظ شدہ تصاویر اور فنگر پرنٹس بھی ملزم کے ہی ہیں۔
مقتولہ نور مقدم کا موبائل ملزم کی نشاندہی پر ان ہی کے گھر کی الماری سے برآمد کیا گیا۔ پولیس کے مطابق نورکے حبس بے جا سے لے کر قتل تک دونوں دن ذاکر جعفر اور اہلیہ عصمت آدم جی معاملے سے باخبر تھے۔
عبوری چالان کے مطابق ملزم نے 19 جولائی کو امریکہ کی فلائٹ بک کرا رکھی تھی لیکن سفر نہیں کیا۔
رپورٹس میں آیا ہے کہ مقتولہ میں زہر یا نشہ کے اثرات نہیں پائے گئے۔ پولیس حکام کے مطابق اس کیس میں 12 ملزمان کے خلاف شہادت و ثبوت موجود ہیں اس لیے ان کی حد تک چالان جمع کرایا گیا ہے۔
چالان میں نور مقدم کے والد کا بیان بھی شامل ہے۔
واقعے کا پس منظر
20 جولائی کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ملزم کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ملزم ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔ جو جعفر گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔
پولیس نے جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔
تفتیش مکمل ہونے پر عدالت نے ملزمان کو اڈیالہ جیل بھیج دیا ہے۔