پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ایک مقامی میڈیا تنظیم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کالعدم تنظیم ’تحریک طالبان پاکستان‘ (ٹی ٹی پی) کے ارکان ہتھیار ڈال دیں اور گروپ اپنا نظریہ ترک کر کے ملک کے آئین کی پاسداری کرے تو حکومت ان کے لیے عام معافی کا اعلان کر سکتی ہے۔
عرب نیوز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی 2007 میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں نمودار ہوئی اور ایک سال کے اندر اس پر پابندی عائد کر دی گئی کیونکہ اس گروپ نے پاکستانی شہریوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے کر کے ان کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔
القاعدہ کے نظریے سے متاثر ہو کر اس گروپ نے اکتوبر 2009 میں راولپنڈی میں واقع پاکستان فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کیا اور دسمبر 2014 میں پشاور کے ایک سکول میں 150 سے زائد افراد، جن میں زیادہ تر بچے تھے، کا بے دردی سے قتل عام کیا۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اس کالعدم تنظیم کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، جس نے حال ہی میں ملک کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے قریب میں نیم فوجی فورس ’فرنٹیئر کور‘ (ایف سی) پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس حملے میں کم از کم چار فوجی ہلاک اور 21 دیگر زخمی ہوئے۔
صدر عارف علوی نے جمعے کو ڈان نیوز ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’اگر وہ (ٹی ٹی پی عناصر) اپنے ہتھیار ڈالنے، ملک واپس آنے اور اس کے آئین کو قبول کرنے پر راضی ہیں تو حکومت ان کو معافی دینے کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔‘
اس مسئلے پر افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر علوی نے تسلیم کیا کہ پاکستانی طالبان اب بھی ان کے ملک کے لیے خطرہ ہیں۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو افغان طالبان کی ’دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت‘ سے پیغام ملا ہے کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند ان کے ملک میں رہ سکتے ہیں لیکن انہیں پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حکومت واقعی سخت گیر عسکریت پسندوں کو معاف کرنے پر راضی ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسے لوگوں کا ذکر کر رہے ہیں جو ’مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ’ہم بیرون ملک ہزاروں پاکستانیوں کو مکمل طور پر ترک کر دیں۔ تو ہمیں (اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے) کوئی نہ کوئی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔‘
پاکستانی عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کو ماضی میں اکثر بھارتی پراکسی کہا جاتا رہا ہے۔
پاکستان نے سابقہ افغان انتظامیہ پر ٹی ٹی پی کے ارکان کو پناہ دینے اور انہیں اپنے شہروں میں حملوں کی اجازت دینے کا الزام لگایا تھا۔
اسلام آباد میں انتظامیہ نے 15 اگست کو کابل کے طالبان کے کنٹرول میں جانے کے بعد عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک سے نمٹنے کے لیے ان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی لیکن افغان طالبان نے صرف اس بات کی ضمانت دی کہ پاکستان مخالف گروپ کو افغانستان سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔