اولمپک جمناسٹ سیمون بائیلز اس وقت رو پڑیں جب انہوں نے امریکی سینیٹ میں ٹیم یو ایس اے کے سابق ڈاکٹر لیری نیسر کے بارے میں ایف بی آئی کی تحقیقات سے متعلق سماعت میں جذباتی گواہی دی جنہیں جنسی زیادتی کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔
سینیٹ کی عدلیہ کمیٹی نیسر پر عائد الزامات کی ایف بی آئی کی جانب سے تحقیقات کے طریقہ کار پر غور کر رہی۔ بدھ کو اس کی سماعت میں سیمون بائیلز نے کہا کہ ٹیم یو ایس اے اور امریکی جمناسٹکس کے ادارے نیسر کو ان سمیت ڈیڑھ سو خواتین کے ساتھ مبینہ جنسی استحصال سے روکنے کے لیے ’اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام‘ رہے۔
اپنے اوپننگ بیان میں اولمپک جمناسٹ نے کہا: ’وہ تنظیمیں جو کانگریس نے مجھے ایک ایتھلیٹ کے طور پر تحفظ دینے کے لیے بنائی تھیں، یو ایس اے جمناسٹکس، اولمپک اور پیرالمپک کمیٹی اپنا کام کرنے میں ناکام رہیں۔‘
بائیلز نے کہا: ’میں نہیں چاہتی کہ کوئی اور نوجوان جمناسٹ، اولمپک ایتھلیٹ یا کوئی فرد اس خوف ناک صورت حال سے گزرے جو میں نے اور سینکڑوں دیگر افراد نے برداشت کی۔‘
انہوں نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی کہ ’میں لیری نیسر کو مورد الزام ٹھہراتی ہوں اور ایک پورے نظام کو بھی مورد الزام ٹھہراتی ہوں جس نے اس کی زیادتی کو ممکن بنایا۔‘
انہوں نے مزید شکایت کی کہ ’واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایف بی آئی نے ہماری طرف آنکھیں بند کر لیں تھیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا یہ بیان میگی نکولز، الی رئیسمان اور میک کیلا مارونی کی دیگر شہادتوں سے قبل سامنے آیا ہے جنہوں نے ایف بی آئی پر تنقید کی کہ وہ ان الزامات کی مکمل تحقیقات میں ناکام رہی کہ امریکی جیمناسٹک کے سابق ڈاکٹر نے لندن 2012 اولمپکس میں ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔
میک کیلا مارونی، جو غصے میں تھیں، نے کہا کہ ’نہ صرف ایف بی آئی نے میرے ساتھ بدسلوکی کو رپورٹ نہیں کیا بلکہ جب انہوں نے بالآخر 17 ماہ بعد میری رپورٹ کو دستاویزی شکل دی تو انہوں نے میری باتوں کے بارے میں بالکل جھوٹے دعوے کیے۔‘
بدھ کو ہونے والی سماعت جولائی میں امریکی محکمہ انصاف کی ایک رپورٹ کے بعد ہوئی جس میں ایف بی آئی کو نیسر کے بارے میں تحقیقات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جو 2015 میں شروع ہوئی تھی۔
یہ الزام لگایا گیا ہے کہ امریکی ایتھلیٹکس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے انڈیاناپولس میں ایف بی آئی کے دفتر میں نیسر کی اطلاع کے بعد مبینہ طور پر صرف ایک گواہ کا انٹرویو لیا گیا تھا اور ایف بی آئی نے ریاستی اور مقامی حکام کو الرٹ نہیں کیا تھا۔
اس کی بجائے نیسر کو 2016 میں بچوں کی جنسی نوعیت کی تصاویر رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اگلے سال خواتین جمناسٹس کے استحصال کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ استغاثہ نے اندازہ لگایا ہے کہ انہوں نے سینکڑوں خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے اضافی رپورٹنگ کی مدد لی گئی۔.
© The Independent