گذشتہ ماہ سقوط کابل سے چند روز قبل ہزاروں قیدی کابل کے مشرق میں واقع ملک کی سب سے بڑی اور بدنام زمانہ جیل ’پل چرخی‘ میں بند تھے لیکن طالبان جنگجوؤں نے دارالحکومت پر قبضہ کرنے بعد جو پہلا کام کیا وہ ان قیدیوں کی رہائی تھی۔
یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی جو طالبان نے ملک بھر میں برق رفتاری سے کیے گئے حملے کے دوران اپنائی تھی۔ اس حمکت عملی کے تحت کسی شہر پر قبضے سے پہلے وہاں کی جیلوں کو نشانہ بنانا تھا تاکہ شدت پسند قیدیوں کو آزاد کرا کے لڑائی کے لیے اپنی صفوں میں نئے جنگجوؤں کا اضافہ کیا جا سکے۔
لیکن ایسا کرتے ہوئے طالبان نے قتل، چوری اور ریپ جیسے سنگین جرائم میں ملوث دسیوں ہزار خطرناک مجرموں کو بھی آزاد کر دیا جو پہلے ہی بگاڑ کے شکار معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
اب بڑی حد تک ویران اس بدنام زمانہ جیل کا دورہ ماضی قریب میں یہاں رہنے والے 15 ہزار قیدیوں کی سلاخوں کے پیچھے کی زندگی کی ایک دلچسپ جھلک فراہم کرتا ہے۔
جیل کے ایک ونگ کے سیلز قیدیوں کے کپڑوں، جوتوں اور دیگر سامان سے اٹے پڑے ہیں جو 14 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے سے صرف ایک دن قبل یہاں ہونے والے حملے کے دوران فرار ہو گئے تھے۔
جیل پر طالبان کے حملے کے دوران صرف قیدی ہی یہاں سے فرار نہیں ہوئے تھے بلکہ فرار ہونے والوں میں جیل کے افسران بھی پیش پیش تھے جن میں سے بہت سے اپنے ہتھیار اور وردیاں تک پیچھے چھوڑ گئے۔
ملک کی سب سے بڑی یہ جیل اب ایک کوڑے دان کا منظر پیش کر رہی ہے۔ گلے سڑے کھانے اور بدبودار ٹوائلٹس کی بدبو سے یہاں سانس لینا بھی دشوار ہے۔
جیل کی حفاظت پر تعینات طالبان کے بندوق بردار جنگجو کہتے ہیں کہ مین ونگ کے 11 بلاکس میں ہر بلاک میں 1500 قیدی رہتے تھے جن میں زیادہ تر عام مجرم، چھوٹے موٹے چور اُچکے اور کچھ گینگسٹر شامل تھے۔
لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا جیل دوبارہ کبھی بھر پائے گی۔
طالبان نے اس بار نسبتاً کم شدت پسند حکمرانی کی کا عہد کیا ہے لیکن 1996 سے 2001 تک اپنے پہلے دورہ اقتدار میں انہوں سخت شرعی سزائیں نافذ کی تھیں۔ جن میں قاتلوں اور عصمت دری کرنے والوں کے لیے سر عام پھانسی، چوروں کے اعضا کاٹنا اور زنا کرنے والوں کو سنگسار کرنے جیسی سزائیں شامل تھیں۔
پل چرخی جیل میں زیر حراست افراد میں طالبان قیدی بھی شامل تھے اور ان کے ساتھ ساتھ داعش، ٹی ٹی پی اور دیگر گروپس کے ان سے بھی زیادہ سخت گیر جنگجو یہاں قید تھے۔
اے ایف پی کے رپورٹرز نے جب جیل کا دورہ کیا تو انہیں ایک سیل کی دیوار پر سیاہ رنگ سے داعش کے نعرے اور ’اسلامک سٹیٹ‘ کے الفاظ ایک سیڑھی کے پلستر پر لکھے دکھائی دیے۔
افغانستان کی سب سے بڑی جیل کی تعمیر 1970 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی اور کئی دہائیوں سے انسانی حقوق تنظیمیں یہاں انتہائی ناقص سہولیات اور غیر انسانی ماحول کی وجہ سے اسے تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہیں۔
اگرچہ دولت مند قیدی یہاں کے محافظوں کو رشوت دے کر نجی سیلز اور بیت الخلا استعمال کر سکتے تھے لیکن زیادہ تر قیدیوں کے لیے ایسی سہولیات ناپید تھیں جب کہ انہیں دی جانے والی خوراک بھی بنیادی غذائیت کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھی۔
انہیں سردیوں میں شدید سردی اور گرمیوں میں سخت گرمی کا سامنا کرنا پڑا۔ حکام کی مٹھی گرم کرکے ملاقاتی قیدیوں سے باآسانی مل سکتے تھے جب کہ رشوت نہ دینے والوں کو لائنوں میں کھڑا کیا جاتا تھا اور بعض کو کوڑے بھی مارے جاتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان جیلوں میں ہنگامے، بغاوتیں اور توڑ پھوڑ عام تھیں اور صورت حال سے نمٹنے کے دوران اکثر گولیوں کا آزادانہ استعمال کیا جاتا تھا۔
ایک ایک سیل میں 15 سے 20 قیدی رکھے جاتے تھے جن کے ہر بستر کے درمیان شال کو پردے اور پرائیویسی کے لیے لٹکایا جاتا تھا۔
بہت کم قیدیوں کے لیے بیت الخلا جیسی ’لگژری‘ دستیاب تھی۔
پھر بھی کچھ قیدیوں نے یہاں راحت کا سامان پیدا کر لیا تھا جیسا کہ کچھ سیلز کی کی کنکریٹ کی دیواروں پر غروب آفتاب کے منظر والے وال پیپر چسپاں تھے۔ کچھ میں سابق حکومت کے قومی پرچم آویزاں تھےاور کچھ قیدیوں نے پرندوں کو بھی اپنے ساتھ پنجرے میں قید رکھا ہوا تھا۔
نماز کے لیے ایک ہال جیل کا نسبتاً صاف ستھرا حصہ تھا جب کہ ایک اور سیکشن کو عارضی مدرسہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
ایک بلاک کے داخلی دروازے کے قریب انتظامی دفتر کو مکمل طور پر جلا دیا گیا جب کہ کچھ انتظامی بلاکس میں سابق گارڈز کی ٹوپیاں، گرے شرٹس، پتلونیں، جوتے اور ہیلمٹ لاوارث پڑے ہیں۔
باہری حصہ آوارہ بلیوں اور کتوں کا مسکن بنا ہوا ہے۔ چار میٹر بلند دیواروں پر خار دار تاریں لگی ہیں اور کئی واچ ٹاورز موجود ہیں۔
ایک وزیٹنگ ایریا کی دیواریں پر گولیوں کے نشان جابجا دیکھے جا سکتے ہیں۔
جیل کی حفاظت پر مامور 33 سالہ طالبان جنگجو مولوی عبدالحق مدنی اسے خالی دیکھ کر خوش ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک خوفناک جگہ ہے۔‘