افغان طالبان کا کہنا ہے کہ صوبہ ننگرہار کے شہر جلال آباد میں ہونے والے تین دھماکوں میں دو افراد ہلاک جب کہ 20 زخمی ہوئے ہیں۔
ایک طالبان عہدیدار کے مطابق یہ دھماکے ہفتے کو ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ان دھماکوں میں طالبان کی پٹرولنگ کرتی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان دھماکوں سے زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
طالبان عہدیدار کے مطابق اس حوالے سے مزید تحقیق کی جا رہی ہے تاکہ ان دھماکوں سے ہونے والے نقصان اور ان کی وجوہات کی جانچ کی جا سکے۔
یہ دھماکے افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ہونے والے پہلے دھماکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ننگرہار صوبے کے محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے ان دھماکوں میں 18 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
Eyewitnesses said an IED explosion occurred in Kabul’s PD13 this morning and two people have been injured.#TOLOnews pic.twitter.com/gyWORQzm7I
— TOLOnews (@TOLOnews) September 18, 2021
دوسری جانب افغان میڈیا کی اطلاعات کے مطابق دارالحکومت کابل میں بھی دھماکے کی اطلاعات ہیں لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔
امریکہ کی ڈرون حملے پر معافی
امریکہ نے گذشتہ ماہ کابل میں کیے گئے ڈرون حملے میں شہری ہلاکتوں پر جمعے کو معذرت کرتے ہوئے اسے ’افسوس ناک غلطی‘ قرار دیا ہے۔
امریکی فوج کے اس ڈرون حملے میں سات بچوں سمیت 10 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ 29 اگست کو کیے گئے ڈرون حملے کا ہدف داعش خراسان کا وہ خود کش بمبار تھا جو کابل کے ہوائی اڈے پر امریکی قیادت میں موجود فوج کے لیے فوری خطرہ بن گیا تھا۔
یہ وقت تھا کہ جب افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا آخری مرحلے میں تھا۔
تاہم ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے کے باوجود امریکی جنرل نے حملے کو ’درست‘ قرار دیا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ اور میرین کور کے جنرل فرینگ میک کینزی نے روئٹرز کو بتایا: ’حملے کے وقت مجھے یقین تھا کہ اس نے ایئر پورٹ پر موجود ہماری فورسز کو فوری طور پر لاحق خطرہ ختم کر دیا ہے۔ ہماری تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ حملے ایک افسوس ناک غلطی تھی۔‘
جنر میک کینزی کا کہنا تھا کہ اب ان کا ماننا ہے کہ جو لوگ حملے میں مارے گئے ان کا داعش کی مقامی تنظیم داعش خراسان کے رکن ہونے یا امریکی فورسز کے لیے براہ راست خطرہ ہونے کا امکان نہیں تھا۔
امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا کہ مذکورہ ڈرون حملے میں احمدی نامی افغان شہری مارے گئے جو غیر منافع بخش تنظیم ’نیوٹریشن اور ایجوکیشن انٹرنینشل‘ کے ساتھ کام کرتے تھے۔
آسٹن کے بیان کے مطابق: ’اب ہم جانتے ہیں کہ احمدی اور داعش خراسان کے درمیان کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ کہ اس دن ان کی سرگرمیاں مکمل طور پر پر امن تھیں اور ان کا تعلق اس فوری خطرے کے ساتھ ہر گز نہیں تھا جس کا ہمیں سامنا تھا۔ ہم معذرت کرتے ہیں اور ہم خوف ناک غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں گے۔‘
اگرچہ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ پینٹاگون کے سینیئر عہدے دار جن میں وزیر دفاع بھی شامل ہوں فوجی حملوں میں ہونے والے شہری نقصان پر ذاتی طور پر معذرت کی ہو۔
امریکی فوج دنیا بھر میں کی جانے والی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کے بارے میں رپورٹ جاری نہیں کرتی۔
مزید غیر ملکیوں کا افغانستان سے انخلا
امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ کئی غیر ملکیوں کو جمعے کو ایک قطری طیارے کے ذریعے کابل ایئرپورٹ سے نکالا گیا تھا۔
طیارے میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، اٹلی اور دیگر ممالک کے شہری سوار تھے۔
امریکہ کا ملک میں اپنا فوجی مشن ختم کرنے کے بعد سے افغانستان سے لوگوں کو نکالنے والا یہ تیسرا طیارہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹر پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا، امریکیوں کے افغانستان میں رہنے کی کوئی آخری تاریخ نہیں۔ ہم انہیں نکال رہے ہیں۔ ہم اپنے وعدوں پر قائم ہیں۔‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کابل ایئرپورٹ سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد قطر اور ترکی نے ہوائی اڈے کو بحال کیا اور اب وہاں سے پروازیں شروع ہو گئی ہیں۔
اس سے قبل قطر، پاکستان اور ایران کے مسافر طیارے بھی کابل کے لیے اڑ چکے ہیں۔
افغانستان میں اب بھی امریکی، برطانوی اور کچھ دوسرے شہری موجود ہیں جن کے بارے میں طالبان کا کہنا ہے کہ غیر ملکیوں اور افغانوں کو قانونی سفری دستاویزات کے ساتھ بیرون ملک سفر کی اجازت ہے۔
افغانستان کے لیے قطر کی امداد
قطر کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ایک قطری خیراتی ادارے کی جانب سے فراہم کی جانے والی انسانی امداد کابل ایئر پورٹ پر پہنچ گئی۔
وزارت نے ٹوئٹر پر کہا کہ یہ چھٹا طیارہ ہے جو چھ ٹن خوراک لے کر افغانستان جا رہا ہے اور یہ کہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جائے گا۔