امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر اسرائیل کسی ایرانی عہدے دار کو قتل کرنا چاہتا ہے تو یہ ایسی کارروائی ہو گی جو ممکنہ طور پر جنگ کا باعث بنے گی لہٰذا اس کے لیے اسرائیل کو امریکہ کی منظوری اور تحفظ حاصل کرنا ضروری ہو گا۔
ہفتے کو امریکی اخبار کی رپورٹ میں گذشتہ سال ایران کے میزائل اور جوہری پروگرامز کے ایک اہم ڈائریکٹر محسن فخری زادہ کے قتل کا حوالہ دیا گیا ہے۔
امریکی اور اسرائیلی حکام کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کا قتل ریموٹ کنٹرول مشین گن استعمال کرتے ہوئے کیا گیا۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق نومبر 2020 میں فخری زادہ قتل کے آپریشن کے دوران اس ہتھیار کو جو ہزاروں کلومیٹر دور سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور ’قاتل روبوٹ‘کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کا پہلی بار تجربہ کیا گیا۔
یہ اس ہتھیار کا ایسا آزمائشی استعمال تھا جو سلامتی اور جاسوسی کی دنیا کو تبدیل کر سکتا ہے۔
ایک انٹیلی جنس اہلکار کے مطابق یہ ہتھیار بیلجیئم ساختہ ایف این میگ مشین گن کا ایک خاص ماڈل ہے جو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اور کئی کیمروں سے لیس ایک جدید روبوٹ سے جڑا ہوا ہے اور اسے سیٹلائٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس جدید ہتھیار، جس کا وزن مجموعی طور پر تقریباً ایک ٹن ہے اسے آہستہ آہستہ چھوٹے پرزوں میں ایران منتقل کیا گیا اور پھر ملک کے اندر جوڑا کیا گیا۔
رپورٹ کے ایک اور حصے میں محسن فخری زادہ کا پس منظر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
فخری زادہ، جنہیں گذشتہ موسم خزاں میں ایران کے علاقے دماوند کے قریب قتل کیا گیا، انقلاب کے ساتھ وابستگی کی علامت کے طور پر چاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے جس میں سرخ رنگ کا عقیق لگا ہوا تھا۔
بالکل اسی طرح جیسے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای انگوٹھی پہنتے ہیں اور پاسدارن انقلاب کے کنٹرول میں کام کرنے والی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی پہنتے تھے، جنہیں قتل کر دیا گیا۔
فخری زادہ نے پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی اور اس انقلابی فوجی ادارے کی صفوں میں رہتے ہوئے ترقی کی۔
انہوں نے اصفہان یونیورسٹی سے ایٹمی طبیعات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے سابق سربراہ علی اکبر صالحی کے مطابق ان کا ڈاکٹریٹ مقالہ نیوٹران کا کھوج لگانے پر تھا۔
فخری زادہ پاسداران انقلاب کے میزائل پروگرام کی ترقی کے نظام کے انچارج اور ایران کے جوہری پروگرام کو شروع کرنے والی شخصیات میں سے ایک تھے۔
دو ایرانی حکام کے مطابق انہوں نے وزارت دفاع میں ڈائریکٹر ریسرچ کی حیثیت سے ملک میں ڈرونز کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا اور میزائل پروگرام کے لیے شمالی کوریا کا سفر بھی کیا۔
محسن فخری زادہ جب مارے گئے تب وہ ایران کے نائب وزیر دفاع تھے۔
ایرانی وزارت خارجہ کو عرب امور کے بارے میں مشورے دینے والے قیس قریشی نے ایک انٹرویو میں کہا: ’جوہری اور نینو ٹیکنالوجی اور حیاتیاتی جنگ کے میدان میں فخری زادہ قاسم سلیمانی کے ہم پلہ تھے لیکن ان کا کام مکمل طور پر خفیہ تھا۔‘
جب ایران کوایسے حساس آلات یا ٹیکنالوجی کی ضرورت پڑی جو وہ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے حاصل نہیں کر سکتا تھا فخری زادہ نے اسے حاصل کا راستہ نکالا۔
اسرائیلی منصوبہ اور ہدف
العریبیہ اردو نے امریکی اخبار کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا کہ اسرائیل کو یقین تھا کہ مقتول سائنسدان ایٹمی بم بنانے کی ایران کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں لہٰذا اس نے 14 سال قبل انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔
فخری زادہ ایرانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں اپنی نمایاں پوزیشن کے باوجود ایک عام زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ وہ اپنی حفاظتی ٹیم کے مشورے کے باوجود اکثر حفاظتی پروٹوکول کو توڑتے ہوئے گارڈز کی بجائے اپنی نجی گاڑی چلایا کرتے۔
قتل کے دن وہ اپنی کالی نسان ٹینا سیڈان چلا رہے تھے اور ان کی بیوی ان کے ساتھ والی نشست پر تھی۔
امریکی اخبار نے خبر دی ہے کہ اسرائیل منظم طریقے سے ان ماہرین کا انتخاب کر رہا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی قیادت کر رہے ہیں۔
2007 میں اس کے ایجنٹوں نے پانچ ایرانی ایٹمی سائنس دانوں کو قتل اور ایک کو زخمی کیا تھا۔ اسرائیلی ایجنٹوں نے میزائل تیار کرنے کے ذمہ دار ایرانی جنرل اور ان کی ٹیم کے 16 ارکان کو بھی قتل کیا۔
دو سال بعد 2009 میں جب ایک اسرائیلی قاتل ٹیم تہران میں منصوبہ بند مقام پر فخری زادہ کا انتظار کر رہی تھی اسرائیل نے آخری لمحات میں آپریشن ختم کر دیا کیونکہ موساد کو شبہ تھا کہ سازش ہیک ہو چکی ہے اور ایران نے ایجنٹوں کو گھات لگا کر پکڑنے کا پروگرام بنا لیا تھا۔
قتل کا دن
اس دن (قتل کے دن) موساد کے لیے کام کرنے والے ایرانی ایجنٹوں نے ایک نیلے نسان زمیاد پک اپ ٹرک کو سڑک کے کنارے کھڑا کیا۔ یہ شاہراہ ابسرد کو مرکزی شاہراہ سے جوڑتی ہے۔
تھوڑی اونچی جگہ پر ترپال کے نیچے اور ٹرک کے ٹرنک میں 7.62 ملی میٹر کی سنائپر مشین گن چھپائی گئی تھی۔
تقریباً دن ایک بجے قاتل ٹیم کو سگنل ملا کہ فخری زادہ، ان کی بیوی اور محافظ دستہ ابسرد کی طرف نکلنے والے ہیں۔
تاہم قابل ذکر بات یہ تھی کہ مجرم ابسرد کے قریب نہیں بلکہ سینکڑوں میل دور نامعلوم مقام پر کمپیوٹر سکرین کے ذریعے یہ سارا آپریشن انجام دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ پورا ہٹ سکواڈ ایران میں نہیں تھا۔
آپریشن کے بعد کئی ایسی خبریں سامنے آئیں جو مبہم ، متضاد اور اکثر غلط تھیں۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک ٹیم سڑک پر فخری زادے کا انتظار کر رہی تھی کہ ان کی گاڑی گزر جائے جبکہ دوسری نے بتایا کہ رہائشیوں نے ایک بڑے دھماکے کی آواز سنی جس کے بعد مشین گن سے فائر کیا گیا۔
دوسروں نے اطلاع دی کہ فخری زادہ کی گاڑی کے سامنے ایک ٹرک دھماکے سے پھٹ گیا۔ پھر پانچ یا چھ بندوق برداروں نے قریبی گاڑی سے چھلانگ لگا کر ان پر فائرنگ کر دی۔
قاتل روبوٹ
کئی ایرانی خبر رساں ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ قاتل ایک روبوٹ تھا اور یہ کہ سارا آپریشن ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا تھا لیکن روبوٹ کے ذریعے قتل کی بات ایرانی عوامی حلقوں میں مذاق بن گئی۔
الیکٹرانک وارفیئر تجزیہ کار تھامس وِنگٹن نے باور کرایا کہ قاتل روبوٹ کے نظریے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
مصنوعی ذہانت سے چلنے والے جدید ہتھیار
امریکی، اسرائیلی اور ایرانی عہدے داروں جن میں انٹیلی جنس اہلکار جو اس آپریشن کی منصوبہ بندی کی تفصیلات سے آگاہ تھے کے انٹرویوز اور مقتول کے اہل خانہ کے ایرانی میڈیا کو دیے بیانات کے مطابق فخری زادہ کے قتل کے ایک سے زائد عوامل اور محرکات تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سب سے اہم عامل وہ اعلیٰ ٹیکنالوجی تھی جس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا اور متعدد قسم کے سیٹلائٹ کیمرے استعمال ہوئے۔ یہ مشین 600 راؤنڈ فی منٹ فائر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
تاہم اس منصوبے سے واقف ایک انٹیلی جنس اہلکار کے مطابق اسرائیل نے ایک جدید روبوٹک ڈیوائس سے منسلک بیلجیئم FN MAG سب مشین گن کا ایک خاص ماڈل منتخب کیا۔
عہدیدار نے بتایا کہ یہ نظام ہسپانوی دفاعی ٹھیکیدار ایسبریکانو کے بنائے گئے سینٹینیل 20 سسٹم سے مختلف نہیں تھا۔
سوائے اس کے کہ مشین گن روبوٹ اور اس کے اجزا اور لوازمات کا وزن تقریباً ایک ٹن تھا۔ یہ سامان چھوٹے چھوٹے الگ حصوں میں مختلف اوقات میں ایران لایا گیا اور اسے ایران میں جوڑ کر تیار کیا گیا۔