’یہ سپرے کلوزڈ رینج ہیں۔ ان کی رینج ایک سے دو فٹ تک ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی آپ پر حملہ کرے تو آپ ان کے چہرے کا نشانہ لیتے ہیں لیکن اگر چہرے پر نہیں بھی گرتا اور آپ حملہ آور کے جسم کے کسی اور حصے کا نشانہ لیتے ہیں تو بھی یہ کام کرتا ہے۔‘
’کیونکہ یہ جلنے کا احساس دیتا ہے۔ اس کے اندر چلی پیپر کا عرق ہوتا ہے۔ یہ وقتی طور پر سرخی، خارش، چھینکوں اور اندھے پن کا سبب بنتا ہے۔ لانگ رینج کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ متاثرہ شخص کے اوپر بھی گر سکتا ہے۔‘
یہ کہنا ہے پنجاب کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے منیب جمشید کا جو گذشتہ چند ماہ سے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں پیپر یعنی مرچوں کا سپرے بنانے کا ایک یونٹ چلا رہے ہیں۔
منیب ایک طالب علم ہیں اور ای کامرس سے وابستہ ہیں۔
یہ سپلیمنٹس وہ امریکہ برآمد کرتے ہیں اور پریمیئم انٹرنیشنل کے نام سے اپنے کاروبار کا انسٹاگرام پیج بھی چلاتے ہیں، جس پر ان کے 45 ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں منیب نے بتایا: ’دو ماہ پہلے جب نور مقدم کا قتل ہوا، تب میں نے پیپر سپرے بنانے کا کام شروع کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اپنی بہنوں کے لیے مرچوں کا سپرے ڈھونڈنا شروع کیا تو انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ بتاتے ہیں: ’پاکستان میں مقامی طور پر کوئی پیپر سپرے نہیں بنا رہا تھا اور مجھے باہر سے منگوانے پڑ رہے تھے جو کہ بہت مہنگے تھے۔ میں نے پھر ایک کیمسٹ سے رابطہ کیا۔ اپنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ شروع کی۔ انٹرنیٹ پر تحقیق کی اور ایک دو فارمولے تیار کیے۔ اس کے بعد اپنی پراڈکٹ کی ٹیسٹنگ کی۔ تقریباً دو تین ہفتوں کے بعد میرے پاس ایک پراڈکٹ تیار ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے چین سےاس کی بوتلیں تیار کروائیں اور اسے بنانا شروع کر دیا۔‘
منیب نے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں ہی پیپر سپرے یونٹ لگایا اوردو ملازمین کام کے لیے رکھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا: ’14 اگست کو مینار پاکستان والے واقعے کے بعد ہم نے پیپر سپرے کی فروخت میں کم از کم دو ہزار گنا اضافہ دیکھا۔ خواتین کو بہت زیادہ مسئلے پیش آنے شروع ہو گئے تھے۔ ان کو بہت ڈر لگ رہا تھا۔ انہیں اپنی حفاظت کے لیے پیپر سپرے چاہیے تھا۔ میں نے اپنا پیپر سپرے لانچ کیا۔ دو سے تین دن میں ہمارے پاس 15 سو سے زیادہ آرڈرز تھے۔‘
منیب نے بتایا کہ ان کے سپرے میں مختلف مرچوں کا عرق، کیمیکل اور گلیسرین شامل ہوتی ہے۔ ’گلیسرین اس لیے ڈالی جاتی ہے تاکہ وہ جلد کے ساتھ چپک جائے۔ اسے اتارنا آسان نہیں اور اسی وجہ سے محلول جسم پر زیادہ دیر تک لگا رہتا ہے اور جلد کو جلنے کا تیز احساس دیتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان تمام اجزا کو ایک ڈرم میں ملا لیتے ہیں، پھر اس محلول کو بوتلوں میں بھرتے ہیں۔ اسے ٹیسٹ کرتے ہیں اور بوتلوں کو پیک کرکے آگے بھیج دیتے ہیں۔ ’ہم اسے ابھی ایکسپورٹ تو نہیں کر رہے لیکن ہم کافی شہروں میں کارپوریٹ آرڈرز پورے کر رہے ہیں۔ بہت سی کمپنیز ہم سے نجی طور پر پیپر سپرے خرید رہی ہیں۔‘
منیب کا کہنا ہے کہ ’پری سیف‘ نامی یہ پیپر سپرے مارکیٹ میں ملنے والے امپورٹڈ پیپر سپرے سے کافی سستا ہے۔ اس میں ڈیلیوری چارجز تقریباً دو سے اڑھائی سو روپے شامل ہیں اور پیپر سپرے کی قیمت تقریباً دو سو روپے ہے اور ہم اسے پانچ سو روپے کا گھر پر ڈلیور کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’یہ ہمارے لیے ایک سوشل کاز ہے۔ یہ کمائی کا ذریعہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کمائی کا ذریعہ ہونا بھی نہیں چاہیے۔‘
منیب اپنے بنائے ہوئے پیپر سپرے کی تشہیر اپنے انسٹاگرام پیج پر ہی کر رہے ہیں۔ ’میرے پاس پہلے سے ہی ایک پلیٹ فارم تھا۔ انسٹاگرام پیج پر 45 ہزار فالورز ہیں۔ جب میں نے پیپر سپرے لانچ کیا تو میں نےاسی پر اپنی مارکیٹنگ کی۔ اس کے علاوہ میں نے بلاگرز اور انفلوئنسرز کو پی آر پیکجز بھیجے کہ وہ لوگوں کو آگاہ کریں اور انہیں معلوم ہو سکےکہ ایک پاکستانی کمپنی ہے جو ہوم بیسڈ ہے اور کم قیمت پر پیپر سپرے مہیا کر رہی ہے۔‘
منیب کہتے ہیں کہ وہ خواتین، جن کو کو آگاہی نہیں ہے، کے لیے یہ کر رہے ہیں اور ایک پیپر سپرے جو ان کی کمپنی بیچ رہی ہے اس میں سے ایک سو روپے خواتین کی ترقی کے لیے عطیہ کیے جاتے ہیں۔
بقول منیب: ’ویمن امپاورمنٹ کیا ہے؟ جن کے پاس قوت خرید نہیں ہے جنہیں آگاہی نہیں ہے، ہم انہیں سڑکوں پر جا کر پیپر سپرے دیں گے۔ اس کے علاوہ ہم آگاہی کیمپس بھی لگائیں گے تاکہ خواتین کو اپنی حفاطت کرنے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کی جاسکے۔‘