توجہ ہٹ یا بٹ جائے تو پودے بھی سوکھ جاتے ہیں۔ پشاور کا بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبہ تو پھر بھی اتنا بڑا بس منصوبہ ہے جس سے خیبرپختونخوا حکومت نے توجہ ہٹا لی ہے۔
منصوبے کے لیے رقم قرض دینے والے ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کی نشاندہی پر اس کے پراجیکٹ ڈیزائن میں تقریباً 32 خامیاں منظرعام پر آ چکی ہیں، جن کی تصحیح اورمنصوبے کی مجموعی تکمیل اب ایک کھرب روپے سے کم لاگت پر ممکن نہیں رہی۔ صوبے کی حکومتی کابینہ اور برسراقتدار جماعتی قیادت میں خال خال ہی کوئی ایسا ہوگا جو اس منصوبے کی اونرشپ لے کر اس کا دفاع کرنے کو تیار ہوگا۔
عوامی مقامات پر یا میڈیا کے سوال پر اِدھر اُدھر کی باتیں کر دی جاتی ہیں، لیکن جب ان میں سے کسی سے اکیلے میں سنجیدہ تبصرے کے بارے میں پوچھا جائے تو کوئی اس منصوبے کے دفاع کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔
19 اکتوبر2017 کو پشاور میں اس منصوبے کا افتتاح اُس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کیا تھا جن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے روزانہ چار لاکھ سے زائد لوگ فائدہ اٹھائیں گے اور اس کے لیے ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک نے 48 ارب روپے بطورقرضہ فراہم کرنا تھا۔
تاہم وقت کی مسلسل طوالت اور لاگت میں بے تحاشہ اضافے کے باعث یہ میٹرو بس منصوبہ ملک کا مہنگا ترین بس پراجیکٹ بن چکا ہے۔
2018 میں نئی حکومت بنی، نیا وزیراعلیٰ آیا، اس کابینہ میں وہ وزرا بھی آئے جو وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں صرف اس وجہ سے ناکام ہوئے تھے کہ پرویزخٹک نے شرط رکھی تھی کہ اگر یہ کرسی انہیں نہیں ملی توان کو بھی نہیں ملنی چاہیے۔ حکومت بنی تو نہ صرف وزیرِاعلیٰ بلکہ تمام کابینہ اور تحریک انصاف کے ایم پی ایز تک کو احساس ہو گیا کہ وہ اگر پرویزخٹک کے اس ادھورے منصوبے کے سر پر ہاتھ رکھیں گے تو خواہ مخواہ کی مشکل میں پڑ جائیں گے، اس لیے وہ اس سے کنارے کنارے ہی چلتے گئے اورآج حالت یہ ہے کہ کوئی اس منصوبے کی ملکیت لینے کو تیار نظر نہیں آ رہا۔
اب جب نجی محفلوں میں کسی وزیر سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ دو سال ہونے کو ہیں بی آرٹی کب مکمل ہو گی؟ اس میں کتنے لوگ سفر کریں گے؟ اس کی فزیبلیٹی کیا ہے؟ تو وہ بات کو سمیٹنے کے لیے قہقہے میں ٹال دیتے ہیں اور یہ کہہ کر بحث کو ہی ختم کر دیتے ہیں کہ ہماری حکومت کو کام کرنے دیں ہم نے صوبہ بھی چلانا ہے۔
اتنا بڑا منصوبہ اس حالت کو کیوں پہنچا اورکوئی حکومتی عہدیدار اس پر بات کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ یہ سوال جب ہم نے پشاورمیں موقر انگریزی اخبار ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اسماعیل خان کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پشاورمیں ایک اچھے ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضرورت تو تھی لیکن حکومت نے جلدی میں ایک ایسے غیر ملکی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کیں جس نے جنوبی ایشیا کے اس قدیم شہر پشاور کو سمجھے بغیر برے ڈیزائن کے ساتھ منصوبہ شروع کیا اور اب یہ بہت بری طرح بننے والا پراجیکٹ بن چکا ہے جس پر بے تحاشا رقم خرچ ہونے کے باوجود یہ تاخیر کا شکار ہے اور اب تو یہ سننے میں آ رہا ہے کہ اس کے ٹھیکے دار نے حکومت سے پیسے بڑھانے کے لیے رابطہ بھی کیا ہے یعنی ختم ہوتے ہوتے یہ سو ارب تک پہنچ جائے گا۔ ایسے میں کوئی کیسے اسے ’اچھا اور اپنا‘ کہہ کراس کا دفاع کر سکتا ہے؟‘
ایک وزیرموصوف سے جب اسی بارے میں پوچھا گیا کہ آپ تو اس صوبے میں عمران خان کے وژن کے حقیقی علم بردار ہیں، آپ تو اس کی افادیت کا دفاع کریں گے تو کہنے لگے: ’کیا عمران خان نے کبھی اس منصوبے کو خود اپنا کہا ہے جو آپ مجھ سے یہ توقع رکھ رہے ہیں؟
مزید پڑھیے
پشاور بی آرٹی منصوبے میں ٹریفک کو کنٹرول کرنے لیے اقدامات موجود نہیں
انہوں نے مزید کہا: ’ہم نے تو اُس وقت بھی کہا تھا کہ یہ منصوبہ شروع نہیں ہونا چاہیے لیکن اسے ہمارے سر تھوپ دیا گیا۔ اب ہم کیوں اس کام کی ذمے داری لیں جو ہم سے پوچھے بغیرشروع کیا گیا تھا؟‘
تحریک انصاف کے یہ وزیر دوسری حکومت میں بھی وزیر بنے ہیں۔
ان باتوں کے دوران اگر آپ کسی وزیر سے پوچھتے ہیں کہ اس منصوبے کے ڈیزائن میں مسلسل تبدیلیاں کی جا رہی ہیں آخر یہ کب مکمل ہو گا تو وہ اب اس پر بات بھی نہیں کرتے بلکہ ان کی طرف سے جواب آتا ہے: ’جب مکمل ہوگا دنیا کو نظر آ جائے گا، آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟‘
ویسے اس صوبے میں آپ نے اس منصوبے کے حوالے سے آج کل اگر کسی عوامی نمائندے خصوصاً وزیرسے بات کرنی ہو تو یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ لیکن ہاں ایک وزیر ہیں، وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی، جو ہر متنازع بات کا جواب دینے کو اپنا فرض یا مجبوری سمجھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ نئی پیش رفت یہ ہے کہ منصوبے کے کنسلٹنٹ نے حکومت کو ایک خط بھیجا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ ٹھیکے دار کی سست روی کی وجہ سے کام میں تاخیر ہوئی ہے اور اسے جرمانہ کیا جائے۔ لیکن اس کا فیصلہ منصوبے کی نگرانی کرنے والے سرکاری ادارے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ذمے داری ہے، وہ یہ دیکھے گی کہ تاخیر کے ذمے دار لوگوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ تو بین الاقوامی معاہدہ ہوا ہے، کسی کو سزا دینے کے اس کے اپنے قواعد ہوتے ہیں۔ یہ اتنا آسان نہیں۔ منصوبے کی لاگت بڑھے گی لیکن معاہدہ کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت 106 روپے تھی ہمیں اس کا فائدہ ہوگا۔‘
اس منصوبے کو قومی سیاست میں اس لیے بھی زیادہ اہمیت ملی ہے کہ تحریک انصاف کے مخالفین اس کی لاگت، خامیوں اور تاخیر کو حکمران جماعت کی بری منصوبہ بندی کے کھاتے میں ڈال کر خود پر ان کی تنقید کا جواب دیتے ہیں۔
پنجاب کے سابق وزیرقانون رانا ثنا اللہ نے گذشتہ روز بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس کا حوالہ کچھ یوں دیا ہے کہ ’میرے کپتان نے تین سال میں پشاور میٹرو مکمل نہیں کی اور نو ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔‘
اس منصوبے کے مستقبل کے بارے میں اسماعیل خان کا کہنا تھا کہ یہ ابھی سوالیہ نشان ہے، مکس ٹریفک کا مسئلہ حل کرنا مشکل لگ رہا ہے، حکومت کا خیال ہے کہ وہ پرائیویٹ لوگوں سے بسیں اور ویگنیں پیسوں سے خرید لے گی تاکہ لوگ بی آر ٹی پر سفر کرنے پر آمادہ ہوں لیکن پشاور میں لوگوں کے ذاتی رکشے اور دیگر گاڑیاں بہت زیادہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان گاڑیوں کے خریدنے سے بی آر ٹی کے ساتھ ساتھ سڑکوں پرمکس ٹریفک کا مسئلہ ختم ہو گا یا نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے جو سٹیشن بنے ہیں وہاں پر ٹیکسی سٹینڈز نہیں ہیں۔ سروس روڈز ختم کر دیے گئے ہیں، ایسے میں یہ مسئلہ کس طرح حل ہو سکتا ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ یہ منصوبہ تحریک انصاف کے ہاتھ کا وہ چھالہ بن چکا ہے جو ٹھیک ہو کے نہیں دے رہا اور اس کے مخالفین نے بھی اس کو مستقل اپنے نشانے پر رکھ کر پوری جماعت کو اس کے حوالے دے دے کر زِچ کر دیا ہے۔