سپریم کورٹ آف پاکستان کے جمعرات کو آنے والے ایک فیصلے کے مطابق کوئی خاتون اپنے والدین کے چھوڑے ہوئے اثاثوں میں وراثت کا دعویٰ صرف اپنی زندگی میں کر سکتی ہے۔
فیصلے کے مطابق کسی بھی خاتون کی اولاد کو ماں کی موت کے بعد ننھیال سے ایسے کسی دعوے کا حق حاصل نہیں ہے۔
عدالت عظمیٰ نے یہ حکم ایک ایسے مقدمے میں جاری کیا، جس میں پشاور سے تعلق رکھنے والی دو متوفی بہنوں کے بچوں نے اپنے نانا سے ماؤں کی وراثت کا دعوی دائر کیا تھا۔
بچوں کے نانا عیسیٰ خان نے اپنی دونوں بیٹیوں میں سے کسی کو اپنی وراثت میں حصہ نہیں دیا تھا، اور 1935 میں اپنی جائیداد اپنے بیٹے عبدالرحمان کو منتقل کر دی تھی۔
دلچسپ بات ہے کہ عیسی خان کی دونوں بیٹیوں میں سے کسی نے اپنی زندگی میں والد کی جائیداد میں اپنا حق نہیں مانگا تھا اور نہ جائیداد کی بھائی کے نام منتقلی کو چیلنج کیا تھا۔
تاہم متوفی بہنوں کے بچوں نے 2004 میں نانا عیسی خان کی جائیداد میں اپنی ماوں کا حصہ حاصل کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا۔ جسے پشاور کی مقامی سول عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے قبول کر لیا تھا۔
بعد ازاں عیسی خان کی اپیل پر پشاور ہائی کورٹ نے سول عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے متوفی بہنوں کے بچوں کو وراثت حاصل کرنے کا حق نہیں دیا۔
عیسی خان کے نواسوں نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی۔
جمعرات کو اسلام آباد میں جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے اپیل خارج کرتے ہوئے عیسی خان کے حق میں دیا گیا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’خواتین کو اپنے والدین کی طرف سے وراثت میں حق اپنی زندگی کے دوران ہی لینا ہوگا اور ایسا نہ کرنے پر ان کی اولاد اس سے محروم ہو جائے گی۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’قانون وراثت میں خواتین کے حق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تاہم دیکھنا ہوگا کہ خواتین خود اپنے حق سے دستبردار ہوں یا دعویٰ نہ کریں تو کیا ہو گا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یاد رہے کہ رواں سال جون میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اینفورسمینٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس بل 2019 (سیکشن 7) منظوری کیا تھا، جس کا مقصد خواتین کو وراثت میں ملنے والے ان کے حق کا حق حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
مجوزہ قانون کے اعتراض و مقاصد میں بیان کیا گیا ہے کہ ’آئین معاشرے میں خواتین کو عزت دیتا ہے اور ان کے ملکیت کے حق کی ضمانت دیتا ہے، جبکہ عام طور پر وراثت میں عورتوں کے حقوق کو خاندان کے افراد زبردستی، دھوکہ دہی، جعلسازی اور دھوکہ دہی کے ذریعے پامال کرتے ہیں۔‘
بل کے مطابق اس لیے ضروری ہے کہ جائیداد میں خواتین کی ملکیت کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اس مقصد کے لیے ایک مؤثر اور فوری ازالہ کا طریقہ کار فراہم کیا جائے۔
مجوزہ بل خواتین کو وراثت میں ان کے حق کے حصول کی غرض سے دائر شکایت پر کسی عدالت کے فوری ازالے میں تاخیر کی صورت میں محتسب کے پاس شکایت درج کروانے کا حق دینا ہے۔
بل کے مطابق ایسی صورت میں محتسب کا فیصلہ آنے پر متعلقہ ڈپٹی کمشنر سات دن کے اندر تعمیلی رپورٹ پیش کرنے کا پابند ہو گا۔