پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عالمی برادری سے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ کسی بھی ملک کو اپنے مفاد کے لیے افغانستان میں ہونے والی افراتفری سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
دونوں ممالک کے درمیان جنرل اسمبلی میں لفظی جھڑپوں کی گونج اس وقت سنائی دی جب جمعے کی شب عمران خان نے بھارتی حکومت پر مسلمانوں کے خلاف ’دہشت کا راج‘ نافذ کرنے الزام لگایا۔
ہفتے کو نریندر مودی نے اپنے خطاب میں اسلام آباد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی پھیلانے اور دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا: ’ہمیں چوکس رہنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی ملک وہاں (افغانستان) کی نازک صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے اور اسے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اسے بطور آلہ استعمال نہ کرے۔‘
اس سے قبل جمعے کو بھارتی وزیر اعظم نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا اور جاپان کے رہنماؤں کے ساتھ چار طرفہ سربراہی اجلاس کے دوران بھی پاکستان کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔ بھارتی عہدیداروں کے مطابق دیگر تین رہنماؤں نے بھی نریندر مودی کی اس بات سے اتفاق کیا۔
بھارتی سیکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا نے وائٹ ہاؤس میں ہونے والے سربراہ اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا: ’ہمارے درمیان افغانستان میں پاکستان کے کردار اور دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان کی نگرانی کے حوالے سے ایک واضح احساس تھا اور یہ کہ اس حوالے سے زیادہ محتاط نگرانی اور زیادہ محتاط تحقیق کو جاری رکھا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب عمران خان نے جنرل اسمبلی کو بتایا تھا کہ طالبان نے گذشتہ ماہ اقتدار سنبھالنے کے بعد انسانی حقوق کا احترام کرنے اور ایک جامع حکومت بنانے کا وعدہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اگر عالمی برادری ان (افغان طالبان کی حکومت) کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور انہیں اس بات پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے تو یہ ہر ایک کے لیے جیت کی صورتحال ہوگی۔ ہمیں افغانستان کے عوام کی خاطر موجودہ حکومت کو مضبوط اور مستحکم کرنا چاہیے۔‘
صدر بائیڈن کی جانب سے ختم کی جانے والی 20 سالہ امریکی جنگ کے نقاد عمران خان نے پاکستان کے اندر انتہا پسندی کے پھیلنے کے لیے امریکی ڈرون حملوں اور امریکی افواج کے ساتھ اسلام آباد کے تعاون کو وجہ قرار دیا۔
امریکی حکام طویل عرصے سے پاکستان پر طالبان کی حمایت کا الزام لگاتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے بائیڈن کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلام آباد کی فوجی امداد میں کمی کی تھی۔
صدر بائیڈن نے ابھی تک عمران خان سے بات نہیں کی ہے حالانکہ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے جمعرات کو اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی اور افغانستان سے امریکی شہریوں کی وطن واپسی میں مدد پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔