’شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کیس میں بریت کی خبر درست نہیں‘

شہزاد اکبر کے مطابق شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز پاکستان سے مفرور ہیں اور لاہور کی احتساب عدالت کو مطلوب ہیں۔

شہباز شریف کو  آٹھ مئی کو لاہور ائیر پورٹ پر  سفر کرنے سے  روک دیا گیا تھا (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے سلیمان شہباز کی منی لانڈرنگ سے متعلق مقدمے میں بریت کی خبر غلط ہے اور نہ ہی پاکستان کے قومی احتساب بیورو کے کہنے پر کوئی کارروائی کی گئی تھی۔

ٹویٹر پر جاری کیے جانے والے اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں ان کا کہنا ہے کہ ’حال ہی میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے کے فنڈز کی تحقیقات نہیں کریں گی اور انہوں نے منجمد فنڈز عدالت کے ذریعے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

شہزاد اکبر کے مطابق شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز پاکستان سے مفرورہیں اور لاہور کی احتساب عدالت کو مطلوب ہیں۔

نیشنل کرائم ایجنسی کی رپورٹ کے بعد شہباز شریف اور سلیمان شہباز کے منجمد بینک اکاؤنٹس بحال کر دیے گئے ہیں۔

مسلم لیگ ن کا موقف

شہباز شریف نے کچھ دیر قبل برطانیہ میں اپنے اکاؤنٹس بحال کیے جانے کے بعد ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ برطانوی عدالت کا آج کا فیصلہ نہ صرف میری، نواز شریف بلکہ پاکستان کی بھی بریت ہے۔ یقینا سچ میں جھوٹ، من گھڑت کہانیوں اور کردار کشی سے زیادہ طاقت ہے۔‘

یہ معاملہ کیا ہے؟

پیر کی دوپہر پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز نے ایک خبر نشر کی تھی جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے مقامی عدالت میں ایک رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے سلیمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے کے منجمد کیے جانے والے اکاؤنٹس بحال کردیے گئے ہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی کی ان تحقیقات شروع کرانے میں پاکستانی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے البتہ پاکستانی حکومت نے ایجنسی کی مدد ضرور کی تھی جو کہ ان سے مانگی گئی تھی۔

البتہ نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ اور نامہ نگار کی جانب سے دکھائے جانے والی دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے میں پاکستانی حکومت کی مرضی شامل تھی۔

واضح رہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے 21 ماہ تک 20 سال کے عرصہ پر محیط عالمی تحقیقات کی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان