امریکی فوج کے اعلیٰ جنرلز نے منگل کو کہا ہے کہ انہوں نے صدر جوبائیڈن کو مشورہ دیا تھا کہ افغانستان میں 2500 امریکی فوجیوں کی موجودگی برقرار رکھی جائے اور ساتھ ہی یہ تشویش بھی ظاہر کی تھی کہ طالبان نے القاعدہ کے ساتھ روابط ختم نہیں کیے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف دا سٹاف جنرل مارک ملی اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینیتھ میک کینزی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ذاتی طور پر سفارش کی تھی کہ 2500 امریکی فوجیوں کو افغانستان کی سرزمین پر موجود رہنا چاہیے۔
واضح رہے کہ جو بائیڈن نے رواں برس اپریل میں 31 اگست تک افغانستان سے تمام فوجیوں کے انخلا کا حکم دیا تھا۔ یہ حکم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں جاری کیا گیا۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے ارکان نے افغانستان سے انخلا اور اس سلسلے میں کابل کے ہوائی اڈے پر افراتفری کی صورت حال کی بارے میں جنرل ملی، جنرل میک کینزی اور وزیر دفاع لوئڈآسٹن سے چھ گھنٹے تک سخت سوال کیے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کمیٹی کے اجلاس کے دوران جب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف دا سٹاف جنرل مارک ملی سے سوال کیا گیا کہ آیا انہوں نے افغانستان میں افواج کو برقرار رکھنے کی تجویز دی تھی؟ انہوں نے بتایا: ’ہاں 2020 کے آخر میں میرا یہ اندازہ تھا اور بعد میں بھی رہا کہ ہمیں 2500 فوجیوں کی تعداد برقرار رکھنی چاہیے تاکہ بات چیت کے ذریعے کوئی حل نکال سکے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ ’کیا آپ نے کبھی صدر بائیڈن کو ذاتی طور پر یہ جائزہ پیش کیا؟‘ انہوں نے جواب دیا: ’میں اوول آفس میں موجود صدر کے ساتھ ہونے والی گفتگو پر قطعی طور پر بات نہیں کرتا ، لیکن میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میری ذاتی رائے کیا تھی اور میں ہمیشہ صاف گو ہوں۔‘
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے کہا کہ افغانستان کے معاملے میں کیا کرنا ہے، صدر بائیڈن کو اس حوالے سے’منقسم‘ رائے ملی تھی۔
ساکی کے بقول: ’بالآخر یہ کمانڈر انچیف کا اختیار ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کریں اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب 20 سالہ جنگ کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعض رپبلکن قانون سازوں کی طرف سے استعفے کے مطالبے کو مسترد کرنے والے جنرل ملی سے سوال کیا گیا کہ آیا انخلا اور اور کابل چھوڑتے وقت افراتفری کی کیفیت، جس میں بم حملے میں 13 امریکی فوجی مارے گئے، ان سے امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا؟ جس پر انہوں نے جواب دیا: ’میرا خیال ہے کہ دنیا بھر میں اتحادی، شراکت دار اور دشمن ہماری ساکھ کا بھرپور طریقے سے جائزہ لے رہے ہیں تا کہ دیکھا جا سکے کہ اس کی سمت کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہاں نقصان وہ لفظ ہے جو استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
جنرل ملی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان دہشت گرد تنظیم تھی اور رہے گی۔ انہوں نے القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط ختم نہیں کیے جس نے افغانستان سے نائن الیون کے حملے کیے۔ انہوں نے کہا: ’یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا طالبان اپنی طاقت کو مضبوط بنا سکتے ہیں یا ملک مزید خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا، لیکن ہمیں کابل سے ہونے والے دہشت گرد حملوں سے امریکی شہریوں کو بچاتے رہنا ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ پر حملہ کرنے کی خواہشات کے ساتھ دوبارہ منظم ہونے والی القاعدہ اور داعش ’بے حد حقیقی امکان‘ ہے، لیکن اس کی صلاحیت کے بارے میں کچھ طے کرنا بہت قبل از وقت ہو گا۔
امریکہ نے جس فوج کی تربیت کی وہ تتربتر ہوگئی: وزیر دفاع
اس موقع پر امریکی وزیر دفاع آسٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ افغان مسلح افواج میں موجود بدعنوانی کی گہرائی اور کمزور قیادت کو پوری طرح نہیں سمجھا۔ ان کے بقول: ’ہم نے ریاست کی تعمیر میں مدد کی لیکن ہم ایک قوم کی تشکیل میں ناکام رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے اور ہمارے شراکت داروں نے جس فوج کی تربیت کی وہ تتربتر ہو گئی۔ بہت سے کیسوں میں اس نے ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ ہمیں اس پر حیرت ہوئی۔ اس سلسلے میں کوئی اور دعویٰ کرنا بددیانتی ہوگی۔
آسٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے افغان فوج کو سازوسامان، طیارے اور مہارت فراہم کی کہ وہ اسے استعمال کرے لیکن آخر میں ہم انہیں جیتنے کا حوصلہ نہیں دے سکے۔
جنرل مارک ملی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری دنوں میں اپنے چینی ہم منصب کو کی جانے والی ٹیلی فون کالز کے بارے میں بھی گواہی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کالز کا مقصد کشیدگی کا خاتمہ تھا اور یہ کہ سابق صدر چین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ جنرل ملی نے کہا: ’مجھے علم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ٹرمپ کا چین پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘