اگست میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد عالمی طاقتوں کے وزرائے خارجہ کا پاکستان میں آنا جانا شروع ہوگیا ہے۔
جرمنی اور نیدرلینڈز کے وزرائے خارجہ کے بعد آج برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومنک راب بھی اسلام آباد پہنچے ہیں، جس سے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ افغانستان کی صورت حال میں پاکستان کا سفارتی کردار کیا ہوگا۔
افغانستان سے انخلا میں پاکستان نے بیشتر ممالک کے شہریوں کی مدد کی جبکہ کابل میں واقع پاکستانی سفارت خانے نے بھی انخلا کے عمل کو تیز کرنے کے لیے ریکارڈ تعداد میں ویزے جاری کیے۔
حالیہ دنوں میں جرمنی اور نیدرلینڈز کے وزرائے خارجہ نے بھی پاکستان کا دورہ کیا۔ نیدرلینڈز کی وزیر خارجہ نے 15 سال بعد پاکستان کا دورہ کیا جبکہ جرمنی کے وزیر خارجہ کا رواں برس میں یہ دوسرا دورہ تھا۔
دفتر خارجہ کے مطابق برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومنک راب آج پاکستان کے دورے پر ہیں اور اپنے پاکستانی ہم منصب سمیت دیگر حکومتی شخصیات سے ملاقات کریں گے، جبکہ اٹلی کے وزرائے خارجہ بھی پاکستان کا دورہ کریں گے۔
پاکستان نے برطانوی شہریوں کے افغانستان سے انخلا میں بھی مدد کی ہے، تاہم برطانیہ نے تاحال پاکستان کو سفری ریڈ لسٹ سے نہیں نکالا جس پر اسلام آباد نے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ وزرائے خارجہ ملاقات میں پاکستان پر عائد سفری پابندیوں پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
برطانیہ کے سیکریٹری دفاع بین ویلس حال ہی میں اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ افغانستان کے پڑوس میں واقع ممالک میں پناہ گزین مراکز بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جہاں افغان شہریوں کو رکھا جائے گا اور اس کا تمام خرچ برطانوی حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ اس معاملے پر بھی برطانوی وزیر خارجہ پاکستانی حکومت کو اپنی تجاویز سے آگاہ کریں گے۔
دفتر خارجہ کے مطابق اٹلی کے وزیر خارجہ چھ ستمبر کو پاکستان آئیں گے۔ ان دوروں کے دوران افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال پر بات چیت کی جائے گی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعرات کو آسٹریا کے وزیرِ خارجہ الیگزینڈر شالنبرگ سے فون پر بات کی۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے اس بات چیت میں افغانستان کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال ہوا۔
اس سے قبل 16 اگست کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی امریکی ہم منصب سے بھی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی اور افغانستان میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد معاملات اور پاکستان سے امریکی افواج کے انخلا میں تعاون کی درخواست کی گئی تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف سفارتی ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان ملاقاتوں اور حالت و واقعات کے تناظر میں پاکستان کا سفارتی کردار اس خطے میں کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیئر صحافی شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’طالبان سے بات چیت کرنے کے لیے تمام ممالک کے لیے پاکستان ہی ہے جس کے ذریعے وہ طالبان سے کوئی بات منوا سکتے ہیں کیونکہ تاثر یہی ہے کہ طالبان پاکستانی حکومت کے قریب ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’جتنے بھی وزرائے خارجہ پاکستان آئے انہوں نے پاکستان سے انخلا کے لیے تعاون کی درخواستیں کیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں نئی حکومت اور ان کی پالیسی کے حوالے سے باتیں بھی زیر بحث آئیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’تمام وزرائے خارجہ کا ایجنڈا ملتا جلتا ہے کہ وہاں اب خواتین کا مستقبل کیا ہو گا؟ حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں اور اگر تسلیم کیا جائے گا تو کن شرائط پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے تاکہ مستقبل میں وہاں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے مسائل جنم نہ لے سکیں۔‘
اسی طرح سفارتی امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی متین حیدر نے کہا: ’افغانستان میں نئی صورت حال کے بعد پاکستان اب سپاٹ لائٹ میں آ چکا ہے۔‘
متین حیدر نے کہا: ’پاکستان سے مطالبات کے حوالے سے اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے طالبان کے ساتھ بہتر قریبی تعلقات سمجھے جاتے ہیں، اس لیے پاکستان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ طالبان سے تسلی لیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔‘
بقول متین حیدر: ’پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے حوالے بھی بات چیت کی گئی جس پر پاکستان نے واضح کیا کہ دوحہ میں حقانی مشران امریکی عہدیداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں، اس لیے کسی کو بھی تشویش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
متین حیدر نے مزید بتایا: ’پاکستان نے بھی عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان حکومت کی مالی مدد کی جائے۔ برطانوی وزیر خارجہ سے بھی یہی کہا جائے گا، کیونکہ اگر افغانستان کی مالی مدد نہ کی گئی تو خطے میں نئے بحران پیدا ہوسکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’مطالبات مغربی ممالک کی جانب سے بھی ہیں اور پاکستان کی طرف سے بھی ہیں۔ مغرب کو افغانستان میں خواتین کے حوالے سے بھی شدید تحفظات ہیں اور ان معاملات پر بھی پاکستان سے مشورہ کیا جا رہا ہے۔‘
متین حیدر نے مزید بتایا: ’پاکستان نے ایک مطالبہ یہ بھی رکھا ہے کہ افغانستان کے تناظر میں پاکستان کو بھارت سے خطرہ لاحق ہے، کیونکہ بھارت میں موجود تنظیمیں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا رخ کریں گی اور نئی دہلی انہیں روکنے کے لیے پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس حوالے سے پاکستان نے عالمی برادری کو حالیہ رابطوں میں آگاہ کر دیا ہے۔‘