پینٹاگون کا ارادہ ہے کہ وہ افغانستان سے انخلا کے بعد القاعدہ کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے کے لیے فضائی حملوں پر انحصار کرے گا لیکن ماہرین اور کچھ قانون ساز نام نہاد ’اوور دی ہورائزن‘ حکمت عملی کی افادیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
بدھ کے روز سیکریٹری دفاع لوئیڈ آسٹن نے امریکی ایوان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ ’اوور دی ہورائزن کارروائیاں مشکل ہیں لیکن بالکل ممکن ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’ان کارروائیوں کے بارے میں انٹیلیجنس صرف امریکی فوجیوں کی موجودگی سے ہی نہیں بلکہ مختلف ذرائع سے آتی ہیں۔‘
امریکی سیکریٹری دفاع لوئیڈ آسٹن کا بیان پینٹاگون کے سربراہ کی جانب سے کابل میں 29 اگست کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے شہریوں کے لواحقین سے معافی مانگنے کے تقریبا دو ہفتوں بعد آیا ہے۔
ڈرون حملے کا ہدف داعش کے مشتبہ عسکریت پسند تھے لیکن انہوں نے سات بچوں سمیت 10 شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا جسے آسٹن نے ’خوفناک غلطی‘ کہا تھا۔
اپریل میں امریکی فوجیوں کے افغانستان سے مکمل انخلا کا اعلان کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ افغانستان میں القاعدہ کی واپسی کی اجازت نہیں دیں گے جہاں سے اسامہ بن لادن نے 11 ستمبر 2001 کو نیویارک اور واشنگٹن پر حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اس کے بعد سے پینٹاگون نے بارہا دعوی کیا ہے کہ وہ افغانستان میں القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کے عسکریت پسندوں کو امریکی اڈوں یا طیارہ بردار جہازوں سے ’اوور دی ہورائزن‘ طرز کے حملوں کے ذریعے قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکی کانگریس کے سامنے اپنی جرح کے دوران آسٹن نے پینٹاگون کے ’اوور دی ہورائزن‘ منصوبوں کے بارے میں عوامی سطح پر زیادہ معلومات دینے سے انکار کیا اور کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ وہ بند دروازوں کے پیچھے منعقد کرائے جانے والے خصوصی اجلاس میں مزید تفصیلات فراہم کر سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کی رائے
متعدد ماہرین اور قانون سازوں نے زمین اور افغانستان پر طویل فاصلے سے کیے جانے والے ممکنہ حملوں کی افادیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے جو کسی بھی امریکی اڈے سے ہزاروں میل (کلومیٹر) دور ہے۔
نیول وار کالج میں میری ٹائم اسٹریٹجی کے پروفیسر جیمز ہومز کے ایک مضمون کی سرخی ہے: ’افغانستان میں دہشت گردوں کو اوور دی ہورائزن سے ماریں؟ گڈ لک۔‘
قومی سلامتی کی ویب سائٹ نائنٹین فورٹی فائیو ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے مقالے میں پروفیسر جیمز ہوم نے کہا کہ ’جنگ کے میدان میں سمندر یا فضائی افواج کے با آسانی پہنچنے کے لیے اوور دی ہورائزن مفید ہوتا ہے۔‘
امریکی بحریہ کے ایک سابق افسر ہومز نے کہا: ’خلیج فارس کی فضائی پٹیوں سے اڑنے والے طیاروں کو دشمن کی ایرانی فضائی حدود کے ارد گرد جنوب کی طرف بحیرہ عرب میں اور شمال کی طرف پاکستانی فضائی حدود سے افغانستان میں اہداف کو نشانہ بنانا ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’کیریئر طیارے فاصلے کے نقطہ نظر سے آسان ہیں کیونکہ ان کا موبائل ایئر فیلڈ بحیرہ عرب میں رہ سکتا ہے۔‘
ہومز نے کہا: ’لیکن اس کے باوجود، افغان دارالحکومت کابل، پاکستانی سمندری ساحل کے قریب ترین مقام سے 700 میل کے فاصلے پر ہے اور فلائٹ کے دوران ایندھن بھرنا لازمی ہوگا۔‘
یہ سب فکشن ہے
فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن قانون ساز مائیک والٹز نے بائیڈن اور آسٹن پر الزام لگایا کہ جب وہ ’اوور دی ہورائزن‘ کی صلاحیت کی بات کرتے ہیں تو وہ ایک ’افسانہ‘ بیان کرتے ہیں۔
والٹز نے کہا کہ عراق کے برعکس جہاں امریکی فوجیوں نے عراقی حکومتی افواج کے ساتھ آئی ایس کا مقابلہ کیا، یا شام جہاں امریکیوں نے کرد جنگجوؤں کے ساتھ شراکت کی، امریکہ کے افغانستان میں کوئی قریبی اتحادی یا قریبی اڈے نہیں ہیں۔
افغانستان میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق امریکی فوجی گرین بیریٹ والٹز نے کہا کہ ’ان ڈرونز کو ایران کے گرد، پاکستان کے تمام راستوں پر اڑنا پڑے گا اور اس سے پہلے کہ وہ کسی بھی ہدف کے قریب پہنچ جائیں 70 سے 80 فیصد ایندھن استعمال کر چکے ہوں گے۔‘
والٹز نے ایک نقشے پر افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’ریاست ہائے متحدہ کے صدر اس ملک کو ایک افسانہ سنا رہے ہیں جس پر ہم یہاں سے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہم عراق اور شام میں کیا کر رہے ہیں جن کے پڑوس میں ہمیں اتحادیوں میسر ہیں اور زمینی اور سمندری رسائی بھی ہے۔‘