برطانیہ کے پہلے ایشیائی نژاد اور غیر سفید فام وزیر داخلہ ساجد جاوید نے ٹریزا مے کے استعفے کے بعد وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ یورپی انتخابات سے پہلے بھی ان کی اس دوڑ میں شمولیت کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔
ساجد جاوید سابق وزیر خارجہ بورس جانسن، موجودہ وزیرخارجہ جیرمی ہنٹ، وزیر صحت میٹ ہینکاک، سابق بریگزٹ وزیر ڈومینک راب اور برطانوی پارلیمنٹ میں سابقہ اپوزیشن لیڈر اینڈریا لیڈسم کے ساتھ اس دوڑ میں شریک ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہا: ’میرا پیغام بہت واضح ہے۔ ہمیں سب کا اعتماد بحال کرنا ہوگا، مل کر چلنا ہوگا اور ملک کی ترقی کے مواقع تلاش کرنا ہوں گے۔‘
2014 میں وزیرِ ثقافت چنے جانے والے ساجد جاوید شروع سے ہی کنزرویٹو جماعت میں مستقبل کے رہنما کے طور پر دیکھے جاتے رہے ہیں۔ 2010 کے عام انتخابات میں وہ بروموسگرو سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔
خاندانی پس منظر
49 سالہ ساجد جاوید برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے اُن چند وزرا میں سے ایک ہیں جو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ 1969 میں روچ ڈیل میں پیدا ہوئے۔ لندن کے میئر صادق خان کی طرح ساجد جاوید کے والد بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک بس ڈرائیور تھے۔ ان کے والدین بھارت میں پیدا ہوئے لیکن تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے تھے۔
جب وہ 1961 میں برطانیہ پہنچے تو ان کی جیب میں صرف ایک پاؤنڈ تھا۔ وہ پانچ بھائی ہیں۔ برسٹل میں پروان چڑھنے والے ساجد جاوید نے ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی اور معاشیات اور سیاسیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایکسٹر یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
پیشہ ورانہ کامیابیاں
24 سال کی عمر میں ساجد جاوید نیویارک میں واقع مین ہٹن بینک کے کم عمر ترین نائب صدر تعینات ہوئے۔ 1997 میں وہ لندن منتقل ہوئے، ڈوئچے بینک میں ڈائریکٹر کی پوزیشن سنبھالی اور چار سال میں ہی اس کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے تک جا پہنچے۔
سیاسی سفر
2012 میں وزیرِ معیشت مقرر ہونے سے پہلے وہ وزارت محنت میں دو مختلف وزرا کے پارلیمانی پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔
ان کی کابینہ میں شمولیت کسی کے لیے حیرانی کا باعث نہیں تھی۔ ساجد جاوید 30 اپریل 2018 کو وزیر داخلہ مقرر کیے گئے۔ وہ برطانیہ کے وزیر خارجہ بننے والے پہلے شخص ہیں جو سفید فام نہیں ہیں۔ اس سے پہلے وہ وزیرِ ہاؤسنگ اور مقامی حکومتوں کے وزیر رہے۔
ساجد جاوید کی سیاسی جدوجہد
ساجد جاوید کی ذاتی ویب سائٹ کے مطابق 2010 میں ایک انٹرویوکے دوران انہوں نے کہا: ’میری واحد خاندانی وراثت میرا مسلمان ہونا ہے لیکن میں کسی مذہب پر عمل نہیں کرتا۔‘ ان کی اہلیہ ایک مسیحی ہیں اور ان کے چار بچے ہیں۔
جب ان کی جماعت پر اسلاموفوبیا کے الزمات عائد کیے گئے تو ان الزامات کا دفاع کرتے ہوئے ساجد جاوید نے کہا: ’ایسے الزامات لگانے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ میری جماعت نے وزیر داخلہ کا منصب کس کو دے رکھا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساجد جاوید کہتے ہیں: ’ہمیں مختلف برادریوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنا ہوگا اور اپنی مشترکات پر توجہ دینا ہوگی۔ میں اپنے ملک سے محبت کرتا ہوں اور میرا برطانوی عوام سے یہ وعدہ ہے کہ میں ان کا ایسا رہنما ہوں گا جو ان کے ساتھ سچ بولے گا اور ان کے مفادات کے لیے کام کرے گا۔ میں اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں، جس نے میرے لیے اتنا کچھ کیا ہے۔ بطور وزیراعظم میں روزانہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے کوشاں رہوں گا۔‘
ان کی جانب سے اس سلسلے میں ’ٹیم ساج‘ کا ایک ہیش ٹیگ بھی جاری کیا گیا ہے۔
ساجد جاوید بریگزٹ کے بڑے حامی تصور کیے جاتے ہیں اور کابینہ اجلاسوں میں وہ اس معاملے پر سابقہ وزیراعظم ٹریزا مے کی کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں۔
وہ بطور وزیرِ خارجہ اپنے چند فیصلوں کی وجہ سے تنقید کا شکار بھی رہے۔ ان فیصلوں میں زیرِ سمندر انگلش چینل کے ذریعے پناہ گزینوں کی برطانیہ آمد اور داعش کی رکن شمیمہ بیگم کی برطانوی شہریت ختم کرنے کے فیصلے شامل ہیں، جبکہ ساجد جاوید کی جانب سے اس تنقید کی وجہ ان کے ایشیائی نژاد اورغیر سفید فام ہونے کو قرار دیا گیا۔