ضلع مردان کے شہر تخت بھائی کے 60 سالہ امیر خان اپنے گھر میں پتھر سے بنی ان چیزوں کے لیے میوزیم بنانا چاہتے ہیں جو پاکستان کی ثقافت سے غائب ہو رہی ہیں۔
امیر خان بتاتے ہیں کہ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں پتھر سے بدھا اور مختلف شکلوں کے دوسرے مجسمے بنانے شروع کیے، جس میں کم لباس مجسمے بھی تھے لیکن بعد میں انہوں نے مجسمے بنانا چھوڑ کر بے جان چیزیں بنانا شروع کر دیں۔
’وہ چیزیں بڑے شوق سے بناتا ہوں جو پہلے ہماری ثقافت میں شامل تھیں اور اب آہستہ آہستہ غائب ہو رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ شوق انہیں سکول کے وقت سے ہے لیکن اب توجہ صرف بے جان اشیا مثلاً کوئی تاریخی عمارت، مخصوص دروازے یا پھروہ چیزیں ہیں جو غائب ہوچکی ہیں یا ہونے والی ہیں۔
’میں انہیں پتھر سے بناتا ہوں تاکہ آئندہ نسل کے لیے محفوظ رہے۔ انہیں پتا چلے کہ یہ ہمارے کلچرکا حصہ تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ پتھرسے بنی اشیا ہاتھوں سے بناتے ہیں، اس میں کچھ اوزار استعمال ہوتے ہیں لیکن زیادہ ترکام ہاتھوں سے کٹائی مشین پر کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان اشیا کی تیاری میں پارا چنار اور قریبی علاقے منزری بابا کے پہاڑوں کا مخصوص پتھراستعمال ہوتا ہے۔
میر خان پتھر کے علاوہ لکڑی اور ہڈیوں سے بھی مختلف اشیا بنا سکتے ہیں۔ وہ یہ کام 35 سال سے کر رہے ہیں اور قدر دان ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
’میرے بچے پڑھ رہے ہیں اور انہیں اس کا شوق نہیں جبکہ تحت بھائی میں میرے علاوہ کوئی نہیں جو پتھروں سے ثقافتی چیزیں بنائے۔‘
پتھر سے اشیا بنانے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟
امیر خان بتاتے ہیں کہ سکول میں ڈارئنگ ماسٹر انہیں اچھی ڈارئنگ پر زیادہ نمبر دیتے تھے۔
’میرا ایک کزن ایگریکلچرمیں تھا اور وہ اپنے محکمے کے لیے مٹی سے زراعت دوست اور دشمن کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانور کے مجسمے بناتا تھا۔ میں اس کام سے بہت متاثر ہوا۔ شوق مجھے بھی تھا لیکن میں تعلیم حاصل کررہا تھا۔‘
امیر خان کے مطابق انہوں نے محسوس کیا کہ وہ بھی یہ سب بنا سکتے ہیں لہذا انہوں نے لکڑی اور مٹی سے چیزیں بنانا شروع کیں بعد میں وہ مجسمہ سازی کرنے لگے۔
انہوں نے کہا کہ جس چیز کا بھی ذہن میں خیال آ جائے تو پھر وہ دن رات دیکھے بغیر اسے بنانے میں لگ جاتے ہیں اور عموماً دو تین میں اپنا کام مکمل کر لیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امیر خان کے مطابق انہوں نے بہت سی ایسی چیزیں بنائی ہیں جو اب استعمال نہیں ہوتیں مثلاً پرانے زمانے میں جب بجلی نہیں تھی لوگ پنکھے کے لیے ایک چیز استعمال کرتے تھے جسے پشتومیں ’ڈینڈس‘ کہتے تھے۔
اس کے علاوہ انہوں نے لالٹین، تانگہ، پانی کا کنواں، ارہٹ، سلائی مشین، ریڈیو، ٹیلفون، گراموفون، ہارمونیم وغیرہ بھی بنائے ہیں۔
امیر خان کہتے ہیں کہ وہ اب تک 200 سے زیادہ چیزیں بنا چکے ہیں، جس میں دوستوں کے لیے کچھ تحائف بھی ہیں۔
’اب میں سوچتا ہوں کہ گھر میں ان چیزوں کے لیے اپنا میوزیم بناؤں کیونکہ اس وقت انہیں سنبھالا مشکل ہے۔ُ
جب ان سے سوال کیا گیا کہ میوزیم بنانے کے لیے کیا انہوں نے حکومت سے مدد کی اپیل کی؟ تو انہوں نے کہا نہ حکومت مدد کرتی ہے اور نہ کوئی اور۔
’بس حکومت سے میری درخواست ہے کہ آنے والی نسل کے لیے کچھ نہ کچھ کرے تاکہ نئی نسل کو یہ معلوم ہو کہ ہماری ثقافت اور تہذیب کیا ہے۔‘