’مجھے نہیں تھا علم کہ فیس بک نہ ہو تو کیا ہو سکتا ہے، وقت تو جیسے گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، اور بوریت تھی کہ اپنے عروج پر کیونکہ انسٹا اور واٹس ایپ بند اور دوستوں سے کئی گھنٹوں تک رابطہ نہیں تھا۔‘
یہ کہنا تھا اسلام آباد کے رہائشی طالب علم محمد بہزاد کا، جو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پیر کی رات فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹا گرام کی بندش کے دوران اپنے احساسات کا اظہار کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان تین سروسز کی بندش کے باعث ان کی طبیعت میں عارضی چڑ چڑا پن محسوس ہو رہا تھا، اور اس دوران انہوں نے اپنی چھوٹی بہن سے تین چار مرتبہ لڑائی کی، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔
یاد رہے کہ پیر کی شام فیس بک اور اس سے منسلک ایپس واٹس ایپ اور انسٹاگرام کی سروسز معطل ہو گئی تھیں۔
باقی دنیا کی طرح پاکستان، خصوصا بڑے شہروں میں انٹرنیٹ زندگی کی بنیادی ضروریات میں شامل ہونے لگا ہے، اور سائنس کے اس شاہکار سے مستفید ہونے والوں کے لیے فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام اجنبی نہیں ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ویب سائٹ کے مطابق ملک میں تقریبا 19 کروڑ موبائل فون رجسٹرڈ ہیں، جب کہ دس کروڑ سے زیادہ تھری جی اور فور جی اور تقریبا 11 کروڑ براڈ بینڈ کے صارفین موجود ہیں۔
ایک بین الاقوامی کمپنی کوور سوشل کی ویب سائٹ پر چھپنے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ لوگ واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں، اور تقریبا اتنی ہی تعداد میں فیس بک کے اکاونٹس ہیں، جبکہ نپولین کیٹ نامی کمپنی کے مطابق پاکستان میں انسٹا گرام استعال کرنے والوں کی تعداد پونے دو کروڑ سے زیادہ ہے۔
تین سروسز کی کئی گھنٹوں تک بندش کے باعث جہاں فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا، وہیں دنیا بھر میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
اسلام آباد ہی سے تعلق رکھنے والے اے لیول کے طالب علم نے اپنے تمام نوٹس اپنے فیس بک پیج پر محفوظ کر رکھے ہیں، اور اس کی بندش کے باعث انہیں اگلے روز ہونے والے امتحان کی تیاری میں مسئلہ پیش آیا۔
کاروبار کی دنیا سے منسلک پاکستانیوں نے بھی فیس بک اور واٹس ایپ کی بندش کی وجہ سے کوفت کا سامنا کیا۔
کاروبار کا نقصان
اسلام آباد میں ایک ریسٹورنٹ سے منسلک سافٹ وئیر منیجر عباس حیدر کو واٹس ایپ کی بندش کا علم تب ہوا جب انہیں ہر گھنٹے موصول ہونے والی سیل کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا: ’میں نے ریسٹورنٹ فون کر کے پوچھا کہ رپورٹ کیوں نہیں بھیج رہے تو انہوں نے کہا کہ واٹس ایپ ڈاون ہے۔‘
عباس حیدر کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں بہت سارے کاروبار فیس بک اور انسٹا گرام کو مارکیٹنگ ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، جب کہ واٹس ایپ صوتی اور بصری کالوں کے مفت اور آسان ذریعے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
پشاور کے ایک کرنسی ڈیلر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی زمانے میں ان کے کاروبار میں فیکس مشین استعال ہوتی تھی، لیکن اب سب کچھ واٹس ایپ پر منتقل ہو گیا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ ملک سے باہر پیسے بھیجنے کے لیے وہ واٹس ایپ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی شہر میں موجود اپنے نمائندے کو پیغام بھیجتے ہیں اور وہ وہاں ادائیگی کر دیتے ہیں۔
راولپنڈی کی چائنہ مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے محمد رفیق نے کہا کہ وہ اپنے غیر ملکی سپلائرز کے ساتھ واٹس ایپ کے ذریعے ہی رابطہ رکھتے ہیں، کیونکہ یہ مفت اور اس میں آپ کی پرائیویسی بھی برقرار رہتی ہے۔
’واٹس ایپ کی بندش کی وجہ ہمارا رابطہ اپنے سپلائرز کے ساتھ کئی گھنٹوں تک منقطع رہا۔‘
محمد رفیق کا کہنا تھا کہ شام کے بعد واٹس ایپ کی بندش نے انہیں مالی نقصان سے بچا لیا۔ ’اگر یہ سب کچھ دن کے دوران ہوتا تو پھر اچھی خاصی مصیبت بن جانا تھی۔‘
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے میڈیا کوآرڈینیٹر خرم علی مہران کے مطابق فیس بک اور اس کی دونوں ایپس کی بندش کے باعث پاکستان میں مالی نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیونکہ یہ تینوں سروسز پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہیں اس لیے پی ٹی اے ایسی معلومات اکٹھا نہیں کرتا۔
’فیس بک والے اگر خود ایسے کوئی اعداد و شمار جاری کریں تو اس سے کوئی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تین سروسز کی کئی گھنٹوں کی بندش سے کتنا مالی نقصان ہوا۔‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون خانہ شاہینہ واٹس ایپ اور فیس بک کی بندش کے باعث دوسرے شہر میں رہنے والی اپنی بہنوں سے کئی گھنٹوں تک رابطہ نہ کر سکیں تھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ واٹس ایپ پر کال ملاتیں تو رنگ بجتی لیکن دوسری طرف کوئی کال اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔ ’میں پریشان ہو گئی کہ میری باجیاں فون کا جواب کیوں نہیں دے رہیں۔‘
دوسری ایپس کی چاندی
فیس بک اور اس سے منسلک میسنجر ایپس واٹس ایپ اور انسٹاگرام دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بہت مقبول ہیں، اور انہیں عام طور پر رابطے رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ان تین سروسز کی کئی گھنٹوں تک غیر موجودگی کے دوران پاکستان میں صارفین نے سوشل میڈیا کی رابطوں کی دوسری سروسز اور ایپس کا استعمال کیا، جن میں ٹوئیٹر سر فہرست رہی۔
پیر کی شام ان سروسز کی بندش کے تقریبا ایک گھنٹے کے اندر ٹوئیٹر صارفین نے دریافت کرنا شروع کر دیا کہ واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹا گرام کو کیا ہو گیا ہے، اور کچھ دیر بعد اس سلسلے میں ایک ہیش ٹیگ بھی وائرل ہوا۔
ٹوئیٹر کے علاوہ وی چیٹ، ٹیلی گرام، سگنل، ٹیلی ٹاک جیسی ایپس کا استعمال بہت زیادہ ہوا۔
انڈپینڈنٹ اردو کی کراچی میں نامہ نگار رمیشہ علی نے واٹس ایپ کی غیر موجودگی میں زندگی کی پہلی آئی فون کی کالنگ سروس فیس ٹائم پر کال موصول کی۔
’جب مجھے فیس ٹائم پر کال موصول ہوئی تو مجھے علم ہوا کہ میرے فون پر یہ سہولت بھی موجود ہے۔‘
رمیشہ کا کہنا تھا کہ ان کے کئی دوستوں نے سروسز کی بندش کے دوران انہیں ایس ایم ایس پیغامات بھیجے جو ایک غیر معمولی بات تھی کیونکہ عام طور پر ان کے حلقہ احباب میں واٹس ایپ اور فیس بک پر ہی رابطے قائم ہوتے ہیں۔