بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بلوچستان کے مختلف علاقوں میں رات تین بجکر ایک منٹ پر شدید زلزلہ آیا، جس کے جھٹکے کوئٹہ سمیت سبی، پشین، قلعہ سیف اللہ، چمن اور زیارت میں بھی محسوس کیے گئے۔
5.9 شدت کے یہ زلزلے کے جھٹکے ضلع ہرنائی میں لوگوں کے لیے مالی اور جانی نقصان کا باعث بنے اور بہت سے لوگوں نے اپنے بچوں اور عزیزوں کو ہمیشہ کے لیے کھودیا۔
زلزلے نے کیا تباہی مچائی اور کیا نقصانات ہوئے یہ جاننے کے لیے میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ جمعرات کی صبح کوئٹہ سے ہرنائی کی طرف محو سفر ہوا۔
کچھ سفر تو بخیروخوبی گزر گیا، لیکن آگے کی خستہ حال سڑک نے بے حال کردیا۔ ہم نے پہلے شاہرگ تک پہنچنا تھا۔
سفر جاری رہا اور ہماری آنتیں اور گاڑی کے انجر پنجر بھی ہلتے رہے۔ راستہ ایسا تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
ہماری گاڑی پتلی سی سڑک پر کبھی ایک رخ پر اور کبھی دوسرے رخ پر اوپر نیچے ہوکر انتہائی کم رفتار سے چلتی رہی۔
ویسے اسے سڑک کہنا بھی غلط ہوگا۔ ایک کالی لکیر تھی، جس کے دونوں اطراف پتھر پڑے تھے۔ دوران سفر سامنے اچانک گڑھا آنے سے سر گاڑی کی چھت سے ٹکرانے کی نوبت آجاتی تھی۔
ہم نے جتنا جلدی زلزلے سے متاثرہ علاقے تک پہنچنے کے بارے میں سوچا تھا، ہمارے منصوبے کے سامنے سڑک کی خستہ حالی سپیڈ بریکر ثابت ہو رہی تھی۔
اس سڑک کے ساتھ مانگی ڈیم کی طرف جانے والی سڑک بھی جاتی ہے۔ کہیں کہیں ہمیں کچھ لوگ سڑک کے کنارے بھاری مشینری کے ذریعے کام کرتے بھی نظر آئے، جس سے اڑنے والی مٹی گزرنے والے بندوں کا حلیہ بگاڑ دیتی ہے۔
سڑک پر مزید آگے جاکر اونچے نیچے راستوں اور پہاڑوں کے درمیان سڑک ایک خطرناک موڑ دار راستے میں تبدیل ہوگئی جسے ہم نے تلخ گھونٹ سمجھ کر پینے کا فیصلہ کیا کیونکہ پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
آگے بڑھتے گئے تو سڑک کی حالت مزید خراب ہونے لگی اور جھٹکوں میں شدت آنے لگی۔ ایک مقام پر تو ہم خود بھی ایک گڑھے میں گرتے گرتے بچے، اگر ڈرائیور بروقت بریک نہ لگاتا تو گاڑی سمیت ہم خود بھی زخمی ہوجاتے۔
سڑک پہاڑ کے خطرناک سفر کے بعد جب ڈھلوان میں اترتی ہے تو غائب ہوجاتی ہے اور بعض جگہوں پر تو سیلابی ریلوں نے اس کا نام ونشان ہی مٹادیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک ڈیڑھ گھٹنے کا سفر تین گھنٹے میں طے کرکے ہم شاہرگ پہنچے۔ راستے میں ہم نے سکیورٹی فورسز کی نقل وحرکت اور ایک جگہ فرنٹیئر کور (ایف سی) اور دوسری جگہ پر آرمی کی چیک پوسٹ بھی دیکھی، جنہوں نے یہی سوال کیا کہ کون ہو؟ کہاں سے آرہے ہو ؟کہاں جارہے ہو؟
شاہرگ میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہاں چند دیواریں گری ہیں اور ایک بچے کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اصل تباہی تو ہرنائی میں ہوئی ہے۔
اسی خراب سڑک پر ایک بار پھر سفر کا آغاز ہوا اور دوپہر کے بعد ہم ہرنائی شہر پہنچ گئے، جہاں زلزلے کے اثرات نمایاں ہونے لگے۔ بازار میں بھی بعض دکانوں کی چھتیں گری ہوئی تھیں اور مالکان پریشانی کے عالم میں کھلے چھت سے آسمان کو تک رہے تھے۔
لوگوں نے بتایا کہ محلہ غریب آباد میں زیادہ تباہی ہوئی ہے، جو ہرنائی ریلوے سٹیشن کے قریب ہے۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ مقامی نیوز چینلز کے نمائندے اور گاڑیاں موجود ہیں، جو زلزلہ متاثرین سے انٹرویوز کررہے ہیں۔
وہاں ہم نے ایک مقامی نوجوان سعید کو ساتھ لیا اور آگے کی طرف چل پڑے۔
’سمجھ ہی نہیں آیا کہ گڑگراہٹ کیسی ہے‘
سعید ہمیں ایک محلے میں لے گئے، جہاں ایک گھر کے مکین اپنے گھر کے تباہ ہوجانے والے کمرے کے ملبے سے کارآمد چیزیں جمع کر رہے تھے۔
زاہد نامی مذکورہ شخص نے بتایا: ’وہ انتہائی دہشت ناک اور خوفزدہ کرنے والی رات تھی، جس نے ہمیں حواس باختہ کردیا۔ کچھ دیر تک تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ گڑگڑاہٹ کی آواز کیسی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب کچھ حواس بحال ہوئے تو میں نے دیکھا کہ زلزلہ آیا ہے اور میرے بچے ملبے تلے دب گئے ہیں۔‘ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ باہر صحن میں سوئے ہوئے تھے۔
زاہد نے بتایا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ اور بچیوں کی چیخ و پکار سنی جبکہ محلے کے دوسرے گھروں سے بھی ایسی ہی آوازیں آرہی تھیں۔ ان کے گھر میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تاہم ملبہ گرنے سے چوٹیں آئیں، جس کے لیے طبی امداد دے دی گئی۔
زاہد نے بتایا کہ وہ ایک مزدور آدمی ہیں اور ان کی برسوں کی محنت چند لمحوں میں مٹی کا ڈھیر بن گئی ہے۔ ’سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ اب میرے پاس دوبارہ اتنے وسائل نہیں کہ اسے تعمیر کرسکوں۔ بس اللہ کا آسرا ہے۔ اب تک تو کوئی امداد نہیں ملی۔‘
ہمیں اس محلے میں ہر دوسرے گھر میں دراڑیں اور دیواریں گرنے کے آثار ملے جبکہ کچھ گھروں میں چھتیں گرنے سے ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
’خونی کمرہ‘
اس کے بعد ہم ایک دوسرے محلے گئے، جہاں زلزلے نے ایک گھر کو مالی نقصان کے ساتھ جانی نقصان بھی پہنچایا اور مالک مکان واحد شاہ کے بھائی کے دو بچے جان سے گئے جبکہ باقی مکین زخمی ہوئے، جو کوئٹہ کے ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
واحد نے بتایا کہ بدھ اور جمعرات کی شب ہم سب سوئے ہوئے تھے کہ گڑگڑاہٹ کی آواز سے جاگے اور کمروں سے باہر نکلے تو دیکھا کہ میرے بھائی کے گھر کی چھت منہدم ہوچکی ہے۔
واحد شاہ نے بتایا کہ کمرے میں سات افراد، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، سوئے ہوئے تھے، جن میں سے دو ہلاک ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ہمارے لیے یہ کمرہ خونی ثابت ہوا ہے اور اس نے میرے بھائی کے بچوں کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیا۔‘
انہوں نے بتایا: ’اتنا بڑا حادثہ ہوگیا اور مالی نقصان کے ساتھ ہمارے بچے بھی نہیں رہے۔ لیکن ابھی تک ان بچوں کی والدہ کو علم نہیں کہ اس کے دوبچے نہیں رہے، وہ خود ہسپتال میں ہے۔‘
’قیامت کا منظر‘
بہرام شاہ نے اس رات کو ایک ’قیامت کا منظر‘ قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’زلزلہ ہر چیز سے خوفناک ہے، کسی کو نہیں پتہ نہیں تھا کہ کون مرا ہے اور کون زندہ ہے۔‘
’ہم ملبے کے ڈھیر میں سے اہل خانہ کو ڈھونڈ رہے تھے کہ نیچے سے آواز آئی کہ ہم یہاں ہیں۔ جب میں نے ملبہ ہٹایا تو نیچے ہماری رشتہ دار خاتون تھیں، جن کی گود میں بچہ تھا۔ یہ ایک انتہائی دردناک منظر تھا۔‘
’ہم نے خاتون کو ملبے سے نکالا۔ وہاں مزید لوگ بھی تھے، جنہیں مٹی ہٹا کر باہر نکالا گیا، تاہم چھوٹا بچہ ملبہ گرنے سے جانبر نہ ہوسکا جبکہ باقی لوگ زخمی ہوئے۔‘
ہمارے ساتھ جانے والے مقامی نوجوان اور سماجی کارکن سعید نے بتایا کہ ہرنائی انتہائی پسماندہ علاقہ ہے اور جب یہاں زلزلہ آیا تو لوگوں نے خود اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں اور لاشوں کو ملبے سے نکالا۔
سعید نے بتایا کہ زلزلے کے بعد ہم نے کچھ زخمیوں کو نکالا اور انہیں طبی امداد دی گئی ہے۔ ان میں بعض نے بذریعہ روڈ کوئٹہ جانے سے انکار کردیا، جن کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ اس راستے سے گئے تو ان کی بچی ہوئی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں گی۔‘
نیوز چینلز پر اور مقامی لوگوں نے بتایا کہ زلزلے میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ہم نے مزید مریضوں کا حال جاننے کے لیے جب ہسپتال کا رخ کیا تو ہمیں حیرت ہوئی کہ وہاں کوئی مریض نہیں ہے۔
ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ہمارے پاس 15 لاشیں لائی گئیں جبکہ 16 زخمیوں کو ہم نے کوئٹہ ریفر کردیا۔ باقی 200 کے قریب زخمیوں کو طبی امداد دے کر گھر بھیج دیا گیا، تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان نے زخمیوں کی تعداد 150 بتائی ہے۔
’امداد نہیں ملی‘
زلزلہ متاثرین نے بتایا کہ پورا دن گزرچکا ہے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ امدادی سامان کی ترسیل کردی گئی ہے، لیکن انہیں ابھی تک کوئی چیز نہیں ملی۔ ’ہمارے لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جو گھر بچ گئے ہیں، وہ بھی اس قابل نہیں کہ ان کے اندر رات بسر کی جاسکے، اس لیے یہ رات بھی مکینوں کو کھلے آسمان تلے گزارنی پڑے گی۔‘
ہرنائی کے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ ’ہمیں امداد ملنے کی کوئی امید نہیں کیوں کہ اس سے قبل جب ہمارے شہر میں بارشوں کے بعد شدید سیلابی ریلے آئے تھے اور حکومت نے امداد کا اعلان کیا تھا، وہ بھی ابھی تک ہمیں نہیں ملا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔‘
سعید نے بتایا کہ شہر میں نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے سروے کا کام شروع کردیا گیا ہے، تاہم اب بھی بعض ایسے گھر موجود ہیں، جہاں تک سروے ٹیمیں نہیں پہنچ سکی ہیں۔
دن ڈھلنے لگا اور ہم نے واپسی کی راہ لی، لیکن سعید سے رخصت لے کر دوبارہ اسی سڑک پر سفر کرنے کا خیال ہی کافی تکلیف دہ تھا، لیکن اس خیال سے گاڑی میں بیٹھ گئے کہ گھر تو واپس جانا ہی ہے۔
ہرنائی سے شاہرگ اور پھر ایک پُر خطر راستےکو عبور کرکے جب ہم کئی گھنٹے کے بعد زیارت کراس پہنچے تو ہم نے سکھ کر سانس لیا کہ جان بچی سو لاکھوں پائے اور اس کے بعد ہم سڑک نامی چیز پر سفر کے قابل ہوئے۔