شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے ایک ’ناقابل تسخیر‘ فوج بنانے کا عزم کرتے ہوئے امریکہ پر خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے۔
ملک کے ہتھیاروں کی ایک نایاب نمائش کے جائزے کے دوران پیر کو انہوں کہا کہ امریکہ نے یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے کہ اس کا شمالی کوریا کی طرف رویہ دشمنی پر مبنی نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق واشنگٹن اور سیئول کے درمیان فاصلے بڑھانے کی بظاہر مسلسل کوشش میں، کم جونگ ان نے یہ بھی کہا کہ ان کی فوج کی تعمیر کا مقصد جنوبی کوریا کو نشانہ بنانا نہیں ہے اور یہ کہ کوریا کے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے ایک اور جنگ نہیں ہونی چاہیے۔
کم نے پیر کو دفاعی ترقی کی نمائش ’سیلف ڈیفنس -2021‘ کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کیا، جو حکمران ورکرز پارٹی کی 76 ویں سالگرہ کے ایک دن بعد منعقد کی گئی تھی۔
اس تقریب میں نئے ہتھیاروں کی ایک رینج پیش کی گئی، جن میں انٹرکونٹینینٹل بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم)، جن کا شمالی کوریا پہلے ہی تجربہ کر چکا ہے یا فوجی پریڈ کے دوران دکھا چکا ہے، بھی شامل تھے۔
شمالی کوریا کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق کم نے کہا: ’امریکہ نے بار بار اشارہ کیا ہے کہ وہ ہماری ریاست کے خلاف دشمنی پر مبنی رویہ نہیں رکھتا، لیکن ہمیں ایسے کسی قسم کے اقدامات کے کوئی ثبوت نہیں ملے، جس سے ہمیں یقین ہو کہ وہ دشمنی نہیں رکھتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اپنے غلط فیصلوں اور اقدامات سے خطے میں کشیدگی پیدا کر رہا ہے۔
جزیرہ نما کوریا میں امریکہ کو عدم استحکام کا ’ذریعہ‘ قرار دیتے ہوئے کم نے کہا کہ ان کے ملک کا سب سے اہم مقصد ’ناقابل تسخیر فوجی صلاحیت‘ کو حاصل کرنا ہے، جسے کوئی بھی چیلنج کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
کم نے جنوبی کوریا پر بھی منافقت کا الزام لگایا کیونکہ وہ شمالی کوریا کے ہتھیاروں کی ترقی کو اشتعال انگیزی قرار دے کر تنقید کا نشانہ بناتا ہے جبکہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے بہت زیادہ خرچ کرتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان کی فوج جنوبی کوریا کو نشانہ نہیں بناتی۔
کم نے کہا: ’میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ جنوبی کوریا وہ نہیں ہے جس کے خلاف ہماری افواج کو لڑنا پڑے۔ یقینی طور پر، ہم جنوبی کوریا کی وجہ سے اپنی دفاعی صلاحیت کو مضبوط نہیں کر رہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے خوفناک تاریخ نہیں دہرانی چاہیے۔‘
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں دکھایا گیا کہ سیاہ سوٹ میں ملبوس کم سرخ قالین پر ٹرکوں پر نصب بڑے میزائلوں، راکٹ لانچنگ سسٹم اور جیٹ طیاروں کی پرواز کا معائنہ کر رہے ہیں۔
سیئول کی وزارت دفاع نے کہا کہ جنوبی کوریا اور امریکی انٹیلی جنس حکام شمالی کوریا کے دکھائے گئے ہتھیاروں کا تجزیہ کر رہے ہیں لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ دوسری جانب سیئول کی یونیفکیشن وزارت نے کہا کہ پیر کی نمائش 2011 میں کم کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی نوعیت کی پہلی نمائش تھی۔
جنوبی کوریا کی ہنم یونیورسٹی میں پڑھانے والے فوجی ماہر یانگ ووک نے کہا کہ تصاویر میں دکھائے گئے ہتھیار بڑے پیمانے پر وہ ہیں، جو شمالی کوریا فوجی پریڈ کے دوران پہلے ہی دکھا چکا ہے۔ یانگ نے کہا کہ ان میں ایک نیا آئی سی بی ایم تھا، جو شمالی کوریا نے گذشتہ سال ایک فوجی پریڈ کے دوران دکھایا تھا، لیکن اس کا تجربہ نہیں کیا گیا۔ پریڈ کے دوران 11 ایکسل لانچ گاڑی پر نصب میزائل شمالی کوریا کا سب سے بڑا آئی سی بی ایم سمجھا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوبی کوریا کے ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ پیر کی نمائش میں ایک اور آئی سی بی ایم اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھی شامل تھے، جن کا شمالی کوریا پہلے ہی تجربہ کر چکا ہے۔
یانگ نے کہا: ’بنیادی طور پر، شمالی کوریا یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ہم نئے ہتھیار تیار کرتے رہیں گے اور اپنے آپ کو جوہری طاقت سے لیس کریں گے، لہذا ان پر پابندیاں نہ لگائیں کیونکہ ہم دوہرے معیار پر متفق نہیں ہوں گے۔‘
شمالی کوریا نے حالیہ ہفتوں میں اپنے حریفوں کی طرف ملے جلے اشارے بھیجے ہیں۔
گذشتہ ماہ شمالی کوریا نے چھ ماہ میں اپنے پہلے میزائل تجربات کیے، جن میں ایٹمی صلاحیت کے ہتھیار بھی شامل ہیں، جو جنوبی کوریا اور جاپان میں امریکی فوجی اڈوں سمیت اہداف تک پہنچ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے ساتھ فون اور فیکس چینلز کو بھی بحال کیا اور کہا کہ اگر شرائط پوری ہوتی ہیں تو وہ جنوبی کوریا کے ساتھ باضابطہ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا تعلقات کو بہتر بنانے کی جنوبی کوریا کی خواہش کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ امریکہ پر دباؤ ڈال سکے کہ وہ شمالی کوریا پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کرے اور دیگر مراعات دے۔
شمالی کوریا نے طویل عرصے سے امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ پابندیوں میں نرمی اور بہتر سکیورٹی ماحول چاہتا ہے تاکہ اپنی مردہ معیشت کی بحالی پر توجہ دے۔ 2019 کے اوائل میں دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کی سفارت کاری اس وقت ختم ہوگئی جب امریکہ نے شمالی کوریا کی جانب سے ہتھیاروں میں جزوی تخفیف کے اقدامات کے بدلے وسیع پیمانے پر پابندیوں میں نرمی کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔
امریکہ نے حال ہی میں شمالی کوریا کے ساتھ ’کہیں بھی اور کسی بھی وقت‘ بغیر کسی شرط کے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ کم نے اس پیشکش کو شمالی کوریا کے خلاف امریکی دشمنی کو چھپانے کی ’چالاک‘ کوشش قرار دیا ہے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ واشنگٹن پابندیوں میں نرمی کرے یا مذاکرات دوبارہ شروع ہونے سے پہلے سیئول کے ساتھ اپنی باقاعدہ فوجی مشقیں معطل کرے۔
اپنے حالیہ میزائل تجربات کے باوجود، کم اب بھی طویل فاصلے کے میزائل تجربات کے حوالے سے 2018 میں عائد کی گئی خودساختہ پابندیوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ اب بھی واشنگٹن کے ساتھ مستقبل کے مذاکرات کے زندہ امکانات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔