شمالی کوریا کے مطلق العنان رہنما کِم جونگ ان اپنے جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کے دو بھائی جنہوں نے 20 برس قبل جزیرہ نما کوریا کے شمالی حصے کو خیرباد کہہ دیا تھا، آج بھی ان کے سینے پر مونگ دلنے سے باز نہیں آ رہے، حد تو یہ ہے کہ وہ غبارے فضا میں چھوڑ کر ایسا کر رہے ہیں۔
کم جونگ ان کے چھوٹے بھائی 51 سالہ پارک جونگ او نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’پولیس یہ جاننے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے کہ ہم نے ایسا (غبارے فضا میں چھوڑ کر) کرکے کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کیا۔ وہ ہم سے پوچھے جا رہے ہیں کہ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ان کے تمام سوالات کے جواب دینا مشکل کام ہے۔‘
بہر حال پارک جونگ او اور ان سے محض ایک سال بڑے بھائی پارک سانگ ہیک کو 20 سال قبل معزول کر دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ چین کے راستے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ تاہم اب انہوں نے تمام خطرات سے قطع نظر اپنی مہم جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔
پارک سانگ ہیک کا کہنا ہے کہ ’کم جونگ اُن جب تک جنوبی کوریا کو ایٹمی حملوں کی دھمکیاں دیتے رہیں گے تب تک ہم کتابچے (غباروں کے ذریعے) بھیجتے رہیں گے۔‘
یہ ایک ایسی کشمکش ہے جس سے جنوبی کوریا کے صدر مون جا اِن گزر رہے ہیں، ایک طرف تو ان کا کم جونگ اُن کے ساتھ مصالحت کی کوششوں کے باوجود پیچھے ہٹنے کا امکان نہیں ہے جب کہ ان بھائیوں کو اشتعال انگیز کتابچے بھیج کر مذاکرات کی تمام کوششوں کو خطرے میں ڈالنے سے روکنا بھی ان کی مجبوری ہے۔
کِم جونگ اُن اور ان کے بھائیوں کے تازہ ترین بیانات پر ایک نظر ڈالیں تو ان میں کچھ تضادات ہیں اور کچھ حیران کن مماثلت بھی۔
کم نے کہا ہے کہ وہ جنوبی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی پر غور نہیں کریں گے اور منصوبہ بندی کے مطابق ایک کروڑ 20 لاکھ کتابچوں کے ساتھ جنوب پر جوابی بمباری نہیں کریں گے۔
پارک سانگ ہیک، جو ’فائٹرز فار فری نارتھ کوریا‘ کے نام سے ایک گروپ کی قیادت کر رہے ہیں، نے شمالی کوریا میں مزید پانچ لاکھ کتابچے بھیجنے کا عزم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی کوریا کی حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی پر جیل جانے سے پریشان نہیں ہیں۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ایسی قوتیں ہیں جو مجھے جیل بھیجنا چاہتی ہیں تاہم اس گرمی میں جیل جانا برا خیال نہیں ہے۔ کم از کم وہاں ٹھنڈ تو ہو گی اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ ہم کتابچے بھیجتے رہیں گے اور سچ کہتے رہیں گے۔‘
ایک سچ جو یہ دونوں بھائی دنیا کو بتانا چاہتے ہیں وہ تقریباً 70 سال قبل کوریائی جنگ کی ابتدا کا باعث بنا تھا، جب 25 جون 1950 کو کم جونگ ان کے دادا نے جنوب پر حملے کا حکم دیا تھا۔
پارک جونگ او کہتے ہیں: ’شمالی کوریا کے باشندوں کو یہ یقین کرنے پر مجبور کیا گیا ہے کہ یہ جنگ امریکہ نے شروع کی تھی۔ ہم یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل میں اس کی شروعات کس نے کی ہے۔ ہم صرف حقائق بتاتے ہیں۔ کم جونگ ان پاگل شخص ہیں اور ہمارے کتابچے ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔‘
پارک سانگ ہیک کا کہنا ہے کہ انتہائی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کِم اپنے لوگوں کو سننا ہی نہیں چاہتے جن کا خیال ہے کہ انہوں نے تین سال قبل ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اپنے بڑے سوتیلے بھائی کم جونگ نام کے قتل کا حکم دیا تھا۔
پارک کے نزدیک ان کے کتابچے میں جو ہیڈ لائن کِم جونگ ان کو سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے: ’شیطان کِم جونگ ان کے ہاتھ اپنے ہی بھائی کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔‘
مترجم کے ذریعے بات کرتے ہوئے پارک سانگ کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ شمالی کوریائی باشندوں کو جانتے ہیں تو وہ اپنے خونی رشتوں کو قتل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘
’انحراف کرنے والے کم جونگ کے احکامات پر تقریباً 480 اعلیٰ ترین عہدیداروں کے قتل کو سمجھ سکتے ہیں, تاہم وہ یہ یقین نہیں کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بھائی کا قتل کیا ہوگا۔‘
اگر شمالی کوریا کے اندر سے پارک سانگ ہیک تک پہنچنے والی اطلاعات درست ہیں تو وہ بات جو کم جونگ ان کے لیے ناقابل یقین ہے وہ یہ ہے کہ خبریں لے جانے والے کتابچوں کو اتنی درستگی کے ساتھ فائر کیا گیا تھا کہ وہ ان کے محافظوں پر آ گرے۔ واضح رہے کہ کم جونگ ان پیانگ یانگ کے مشرق میں واقع پہاڑوں پر گذشتہ سال کھولے گئے ریزورٹ میں گرم چشموں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
پارک سانگ ہیک نے کہا: ’کم جونگ کا کہنا ہے کہ یہ ریزورٹ عوامی مقام ہے جب کہ حقیقت میں یہ موسم گرما میں ان کی ذاتی رہائش گاہ بن کر رہ چکا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کتابچوں میں سے ایک پر ایک نظر پڑنا ہی کم جونگ کی چھٹیوں کو برباد کرنے کے لیے کافی تھی۔
پارک نے کہا: ’اس سے ان کا موڈ خراب ہوگیا۔ وہ اسے دیکھ کر اتنا پریشان ہو گئے کہ انہوں نے دو دن پہلے ہی فوراً وانسن واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وانسن مشرقی ساحل پر واقع شہر ہے جہاں انہوں نے اپنے لیے ایک اور ریزورٹ بنایا ہوا ہے۔
ان کتابچوں کو دیکھنے کے بعد ہی کم جونگ ان کی چھوٹی بہن کم یو جونگ، جو ان کی نائب بھی ہیں، نے یہ پرچے بھیجنے والوں پر ذاتی حملے کیے، انہیں ’انسانی گندگی‘ اور ’دوغلے کتے‘ قرار دیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے ’دشمن‘ سے نمٹنے والے ڈیپارٹمنٹ کے انچارج کو فیصلہ کن انداز میں ان کے خلاف کارروئی کا حکم دیا۔
کچھ ہی دیر بعد ہی شمالی کوریا کی فوج نے جنوبی کوریا کے اس ترک شدہ صنعتی کمپلیکس کے اندر قائم پرتعیش نئے رابطہ دفتر کو دھماکے سے اڑا دیا جہاں جنوبی کوریا کے صدر مون نے شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان چھوٹے بڑے معاملات پر ان سے بات چیت کی تھی۔
صدر مون اب بھی کم جونگ ان سے ممکنہ اچھائی کی امید لگاتے ہوئے بات چیت کو شروع کرنے کے لیے ترمیم کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
سیئول نے کہا ہے کہ شمالی کوریا میں کتابچے بھیجنے سے مون اور کم کے مابین انٹر کوریا تعاون سے متعلق معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
جنوبی کوریا میں یونیفیکیشن کے لیے نامزد کیے گئے نئے وزیر لی ان ینگ کا واضح طور پر کہنا ہے کہ ’ایسی کوئی بھی حرکت جس سے دونوں ممالک کے درمیان فوجی تناؤ پیدا ہوسکتا ہو، وہ کسی بھی حالت میں کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔‘
اس کے جواب میں ’فائٹرز فار فری نارتھ کوریا‘ کا کہنا تھا: ’مون کی شمالی کوریا کی حامی انتظامیہ عوام کے لیے آزاد جمہوریت اور آزادیِ رائے کی مخالفت کر رہی ہے۔‘
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ پارک سانگ ہیک کا خیال ہے کہ جنوبی کوریا اب ’سٹاک ہوم سنڈروم‘ میں مبتلا ہو چکی ہے، یہ وہ عجیب و غریب محبت ہے جن میں زیادتی کرنے والے سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کچھ میڈیا گروپس نے ہمارے کتابچوں کو پورن قرار دیتے ہو بے وقعت کر دیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ دراصل ایک اور گروپ، جس سے وہ ناواقف تھے، نے سات سال قبل کم جونگ ان کی اہلیہ کی کردار کشی کے لیے کتابچے فائر کیے تھے لیکن ان کے گروپ کا مقصد صرف کم جونگ کی ظالمانہ طرز حکمرانی کو نشانہ بنانا ہے۔
کتابچے سے لدے غباروں کے غول بھیجنے کے منتظر چھوٹے بھائی پارک جونگ او کا کہنا ہے کہ وہ ایک رعایت دینے پر راضی ہوگئے تھے۔
انہوں نے چاولوں سے بھری ہوئی پلاسٹک کی بوتلیں سمندر کے راستے شمالی کوریا بھیجنے کا ارادہ اس وقت ترک کر دیا جب حکام نے انہیں یقین دلایا کہ اس سے مقامی باشندوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے موقع ملنے پر دوبارہ یہ کام کرنے کا عہد کیا ہے۔
’ہم شمالی کوریا کے شہریوں کی مدد کے لیے چاول بھیج رہے ہیں۔ ہم انہیں اپنے دلوں کا ٹکڑا بھیج رہے ہیں لیکن حکومت صرف کم یو جونگ اور کم جونگ ان کی بات سنتی ہے۔‘
© The Independent