اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ میں سرکاری تحائف کی تفصیلات سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکمرانوں کو ملنے والے تحائف ان کے نہیں بلکہ عوام کے ہیں۔ اگر کوئی عوامی عہدہ نہ ہو تو کیا عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو تحائف ملیں گے؟
کابینہ ڈویژن کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ ’تحائف کی تفصیلات عام کرنے سے ممالک کے باہمی تعلقات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ کچھ ممالک نہیں چاہتے کے معلومات عام کی جائیں۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اُس پہ وڈیوز بنتی ہیں جس سے دوست ممالک ناراض ہو سکتے ہیں۔‘
اس دلیل پر عدالت نے کہا کہ کس ملک نے کتنی محبت سے کیا تحفہ دیا یہ بات عوام کو بتانے سے تعلقات کیسے خراب ہوں گے؟ اگر کسی نے یورینیم تحفہ میں دی ہے تو بے شک وہ نہ بتائیں لیکن ہر تحفے کو پبلک کرنے پر پابندی کیوں؟
عدالت نے مزید کہا کہ اگر کسی ملک نے ہار تحفے میں دیا تو پبلک کرنے میں کیا حرج ہے؟ حکومت دیگر ممالک سے ملنے والے تحائف نہ بتا کر کیوں شرمندہ ہورہی ہے؟
جسٹس میاں حسن نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ حکومت تمام تحائف کو میوزیم میں کیوں نہیں رکھتی؟ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے گذشتہ 10 سالوں کے تحائف پبلک کردے۔ حکومت یہ بھی بتائے کہ کتنے تحائف کا ایف بی آر سے تخمینہ لگوایا؟
عدالتی سوالات اور وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات بتائیں گے یا نہیں اس معاملے پر حکومت نے عدالت سے مہلت مانگ لی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کی استدعا پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی ہے۔
سیاق و سباق
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ شہری ابرار خالد نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں وزیراعظم کو ملنے والے تحائف کو پبلک کیے جانے کی درخواست دائر کی تھی۔
درخواست گزار ابرار خالد نے درخواست میں پی آئی سی سے وزیراعظم عمران خان کو اب تک موصول ہونے والے تحائف کے بارے میں تفصیلات مانگی تھیں۔
جس کے بعد پاکستان انفارمیشن کمیشن نے کابینہ ڈویژن کو ہدایت کی تھی کہ غیر ملکی سربراہان مملکت، حکومتوں کے سربراہان اور دیگر غیر ملکی معززین کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو موصول ہونے والے تحائف کے بارے میں مطلوبہ معلومات فراہم کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی وزیراعظم کے اپنے پاس رکھے ہر تحفے کی تفصیلات اور وہ قواعد جن کے تحت انہوں نے تحائف وصول کیے اور اپنے پاس رکھے بتانے کا کہا۔
تاہم حکومت نے درخواست کی مخالفت کی اور پی آئی سی کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ 2017 کے معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتا اور معلومات فراہم کرنے سےانکار کر دیا۔
اس کے بعد کابینہ ڈویژن نے معلومات فراہم کرنے سے متعلق پاکستان انفارمیشن کمیشن کے حکم کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔
کابینہ ڈویژن نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں دعوی کیا کہ پی آئی سی کا حکم غیر قانونی اور بغیر قانونی اختیار کا ہے۔
حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ توشہ خانہ سے متعلق کوئی بھی معلومات ظاہر کرنے سے بین الاقوامی تعلقات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔
کابینہ ڈویژن کا درخواست میں مزید مؤقف تھا کہ تحائف کی تفصیل کے اجرا سے میڈیا ہائپ اور غیر ضروری خبریں پھیلیں گی، مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر اور ملکی وقار مجروح ہو گا۔