انیل کپور اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے اور کچھ ایسی ہی ضد جیکی شروف نے بھی پکڑی ہوئی تھی۔ انیل کپور کا کہنا تھا کہ وہ 1979 سے بالی وڈ فلموں سے وابستہ ہیں۔ ادھر جیکی شروف یہ گردان کر رہے تھے کہ ان کی حالیہ فلم ’ہیرو‘ نے زبردست کاروبار کیا ہے، جس نے انہیں واقعی ’ہیرو‘ بنادیا ہے۔
دوسری جانب فلم کے ہدایت کار راج این سپی تو جیسے گھن چکر بن گئے تھے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کریں تو کیا کریں؟ دونوں نے کہہ دیا تھا کہ فلم کے اینڈ کریڈٹ میں نام پہلے ان کا ہی آئے اور اس سلسلے میں دلیلیں دی جارہی تھیں۔
قصہ ہے 1984 میں ریلیز ہونے والی فلم ’اندر باہر‘ کا۔ جس میں پہلی بار انیل کپور اور جیکی شروف کام کررہے تھے۔ فلم مکمل تو ہوچکی تھی لیکن اٹکی تو اس بات پر آکر کہ پوسٹر اور اینڈ کریڈٹ پر کس کا نام پہلے آئے۔ انیل کپور ’شکتی‘، ’وہ سات دن‘ اور ’مشال‘ کی کامیابی کا مزا لوٹ رہے تھے جبکہ سبھاش گھئی نے ایک گمنام لڑکے جیکی شروف کو ’ہیرو‘ میں موقع دے کر ہر دل کی دھڑکن بنادیا تھا۔
ہدایت کار راج سپی کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دونوں انا پرست ہیروز کو کیسے سمجھائیں۔ دراصل یہ وہ زمانہ تھا جب بڑے بڑے اداکار اس بات کا زور لگاتے تھے کہ ان کا نام پوسٹرز اور اینڈ کریڈٹ میں پہلے آئے، اب اسے ان اداکاروں کی احساس برتری کا خبط ہی کہا جاسکتا ہے یا پھر یہ کہ وہ اس طرح ساتھی اداکاروں پر اپنا بھرم قائم رکھنا چاہتے تھے۔
گو کہ انیل کپور اور جیکی شروف کو فلم نگری میں قدم جمائے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے تھے لیکن دونوں کے نخرے کسی سپر سٹار سے کم نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جیکی شروف اور نہ ہی انیل کپور ٹس سے مس ہو رہے تھے۔ راج سپی کی فلم بن کر تیار پڑی تھی اور معاملہ صرف ’اینڈ کریڈٹ‘ پر آکر جیسے رک گیا تھا۔ اس کھینچا تانی نے اس قدر طول اس لیے بھی پکڑا کیونکہ فلم کے سیٹ پر جیکی شروف اور انیل کپور کے درمیان ہلکی پھلکی تلخ کلامی بھی ہوچکی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک منظر کی عکس بندی کراتے ہوئے انیل کپور نے اچانک ’کٹ‘ کہا اور جیکی کو مشورہ دیا کہ وہ اس منظر میں فطری اداکاری نہیں کر پا رہے۔ اسی لیے دوبارہ کوشش کریں۔ اس بات پر جیکی شروف ہی نہیں راج سپی بھی خفا ہوئے۔ جس پر ہدایت کار نے سب کے سامنے انیل کپور کو کم و بیش ڈانتے ہوئے کہا کہ وہ فلم کے ہدایت کار ہیں تو انیل کپور اپنی استادی نہ دکھائیں، جب وہ سمجھیں گے تب منظر دوبارہ عکس بند کیا جائے گا۔
بظاہر ایسا لگا کہ اس بات پر انیل کپور اور جیکی شروف کے درمیان اس ’نام کی جنگ‘ نے اور گُل کھلائے۔ ایسی صورت حال میں راج سپی نے سبھاش گھئی سے مدد چاہی کہ وہ مشورہ دیں کہ کس کا نام پردے پر پہلے آئے۔ کہا جاتا ہے کہ سبھاش گھئی کا ووٹ اپنے ’ہیرو‘ جیکی شروف کی طرف تھا۔ ہدایت کار اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے۔ دھیرے دھیرے فلم کی نمائش کی تاریخ قریب آرہی تھی۔ تب راج سپی کو ایک حل نظر آیا کہ کیوں ناں جیکی اور انیل دونوں کا نام ایک ساتھ سکرین پر دکھایا جائے، یعنی برابر برابر۔ رہا سوال پوسٹرز کا تو تقسیم کاروں سے کہا گیا کہ مختلف شہروں میں دونوں اداکاروں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ان کا نام پہلے اور دوسرے نمبر پر رکھا جائے۔
ہدایت کار راج سپی نے اپنی دانست میں تو یہ گتھی سلجھالی تھی لیکن فلم کے تقسیم کار یہاں اپنے منافعے کو دیکھتے ہوئے اور ہوشیاری دکھا گئے، جنہوں نے ’ہیرو‘ کی مقبولیت اور شہرت کو ’کیش‘ کرانے کی غرض سے جو پوسٹرز چھاپے، ان میں جیکی شروف نمایاں تھے جبکہ انیل کپور کی گزارے لائق تصویر شائع کی گئی۔ پوسٹرز دیکھنے کے بعد تو انیل کپور کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ جنہوں نے اس بات پر باقاعدہ احتجاج کیا۔بات پہنچی فلم کے پروڈیوسر رومو این سپی تک، جنہوں نے بھائی راج سپی سے سارے معاملے کی چھان بین کرتے ہوئے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کا حکم دیا۔
اب اسی سوچ بچار میں فلم کی نمائش کی جو طے شدہ تاریخ تھی، وہ گزر بھی گئی۔ لگ بھگ آٹھ ماہ فلم تاخیر کا شکار ہوئی، فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا کہ آخر کیا کیا جائے کہ دونوں اداکار خفا بھی نہ ہوں۔ادھر تقسیم کاروں کا دباؤ بڑھ رہا تھا کہ فلم کب سینیما گھروں میں پہنچے گی۔
ایک روز راج سپی کو جیکی شروف اور انیل کپور کی انا پرستی کا توڑ مل ہی گیا۔جس پر ان کی یہی سوچ تھی کہ اب نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ انہوں نے انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوسٹرز سے دونوں اداکاروں کے نام سب سے پہلے ہٹوائے اور ساتھ ہی انیل کپور اور جیکی شروف کی یکساں قد و قامت والی تصویر ایسی بنائی کہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر بلند کیے ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے بعد اب وہ آئے فلم کے اینڈ کریڈٹ پر جو فلم کے آغاز میں دکھانے تھے۔ انہوں نے سٹار کاسٹ کا نام ہی اڑا دیا اور ٹائٹل کے بعد سکرین پر ٹیکنیکل سٹاف، موسیقار اور دیگر افراد کے نام جھلملائے۔ یعنی کون ہیرو ہے، کون ہیروئن اور کون معاون اداکار، فلم کے نہ آغاز میں بتایا گیا اور نہ ہی اختتام میں۔
اب بالآخر سات ستمبر 1984کو ’اندر باہر‘ مختلف سینیما گھروں کی زینت بنی تو جیکی شروف اور انیل کپور یہ سب دیکھ کر مسکرائے بنا نہ رہے، وہ سمجھ گئے کہ راج سپی نے کیا ہوشیاری دکھائی ہے۔ فلم میں ایک دوسرے کی اداکاری کو پرکھنے کے بعد یہ بھی تسلیم کیا کہ اصل چیز نام نہیں کام ہے۔
فلم باکس آفس پر تو اتنا کامیاب نہ ہوئی لیکن اس کے بعد انیل کپور اور جیکی شروف کی دوستی کا ایک نیا دور شروع ہوا، جس کے ذریعے پرستاروں نے ان دونوں کو فلموں ’یودھ‘، ’کرما‘، ’رام لکھن‘، ’پرندہ‘، ’ترموتی‘ اور ’1942 آ لو سٹوری‘ جیسی بہترین تخلیقات میں دیکھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں پھر کبھی اس بات پر بضد نہیں ہوئے کہ کس کا نام پہلے اور کس کا بعد میں جائے گا کیونکہ اس بات کا فیصلہ انہوں نے اپنے ہدایت کاروں پر چھوڑ دیا۔ درحقیقت یہ ہدایت کار راج سپی کی ذہانت اور تدبر ہی تھا کہ انہوں نے ان بڑے سٹارز کی انا اور سٹارڈم کو تبدیل کرکے رکھ دیا کہ آج یہ ایک دوسرے کے بہترین دوست تصور کیے جاتے ہیں۔