ممبئی ہائی کورٹ کے ناگ پور بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کسی مرد کی دوسری بیوی کو اس کی قانونی شریک حیات نہیں کہا جا سکتا، چاہے اسے پہلی شادی سے متعلق اندھیرے میں بھی رکھا گیا ہو۔
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق عدالت نے یہ فیصلہ ایک خاتون کی اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سنایا، جس میں انہوں نے اپنے شوہر سے اپنے ازدواجی حقوق سمیت نان نفقے کا مطالبہ کیا تھا۔
مذکورہ 47 سال خاتون نے ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ سال 2012 میں اس وقت دائر کیا تھا، جب ایک فیملی کورٹ نے ان کے اپنے 66 سالہ شوہر کی قانونی زوجہ ہونے کے دعوے کو مسترد کردیا تھا۔
جسٹس اے ایس چندورکر اور جسٹس جی اے سناپ پر مشتمل بینچ نے اپنے فیصلے میں لکھا: ’اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ شوہر نے دوسری بیوی چندراکلا کو اپنی 1990 میں ہونے والی پہلی شادی کے بارے میں اندھیرے میں رکھا تھا تو اس ثبوت کی بنیاد پر بھی درخواست گزار کے قانونی اہلیہ ہونے کے دعوے کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔‘
چندرکلا نے فیملی کورٹ میں اپیل کی تھی کہ عدالت نے ان کے پیش کردہ شواہد اور گواہوں کے بیانات کو نظر انداز کیا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کی تھا کہ ان کی شادی اپنے 66 سالہ شوہر کے ساتھ اگست 2003 میں تمام رسوم و رواج کے مطابق ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اور ان کے شوہر پانچ سال تک اکٹھے رہے، جس کے بعد ان کے شوہر نے 2008 میں انہیں اس وقت چھوڑ دیا جب انہوں نے اپنے شوہر کو 50 ہزار بھارتی روپے دینے سے انکار کیا۔ چندرکلا کے مطابق جب انہوں نے اپنے شوہر کو ڈھونڈ نکالا تو ان کے رشتہ داروں نے انہیں مارا پیٹا۔
دوسری جانب اس مقدمے کے مدعا علیہ نے چندرکلا سے شادی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شادی 1990 میں ہوئی تھی، جس کے بعد 2009 میں ان کی طلاق ہوئی تھی، اس لیے دوسری شادی کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی۔
ممبئی ہائی کورٹ نے ان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ چندرکلا ان کی قانونی بیوی نہیں تھیں کیونکہ دوسری شادی کے وقت تک ان کی پہلی بیوی سے طلاق نہیں ہوئی تھی۔
جرح کے دوران چندرکلا نے تسلیم کیا کہ انہیں اپنے شوہر کی پہلی شادی کے متعلق علم تھا۔
عدالت نے نان نفقے سے متعلق ان کے دعوے کو بھی مسترد کر دیا۔