ایک نئی تحقیق نے سائنس دانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ دنیا بھر کے دریا اینٹی بائیوٹکس سے آلودہ ہو گئے ہیں.
یونیورسٹی آف یارک کی تحقیق میں شامل عالمی سائنس دانوں کی ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ کچھ آبی گزر گاہوں میں اینٹی بائیوٹک مواد کی مقدار محفوظ سطح سے 300 گنا زیادہ ہے۔
لندن کے بیچوں بیچ بہنے والے دریائے ٹیمز میں پانچ اقسام کی اینٹی بائیوٹکس پائی گئیں، جس میں جِلد اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن کے علاج کے لیے دی جانے والی اینٹی بائیوٹک سِپروفلوکسیشن بھی شامل تھی اور اس کی مقدار محفوظ سطح سے تین گنا زیادہ پائی گئی۔
تحقیقاتی ٹیم نے دنیا کے 72 ملکوں میں بہنے والے دریاؤں میں 14 عام اینٹی بائیوٹکس کی جانچ کی اور وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان دریاؤں سے حاصل کیے گئے دو تہائی نمونوں میں یہ اینٹی بائیوٹکس موجود تھیں۔
سائنس دانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دریاؤں میں موجود اینٹی بائیوٹکس کی وجہ سے بیکٹیریا میں مزاحمت کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے اور یہ اینٹی بائیوٹکس اب انسانوں پر بے اثر ہو سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق، 2050 تک ان اینٹی بائیوٹکس کی مزاحمت ختم ہونے سے ایک کروڑ انسان لقمہ اجل بن جائیں گے۔
یونیورسٹی آف ایکسیٹر سے وابستہ پروفیسر ویلیم گیز نے، جو اس تحقیقاتی ٹیم کا حصہ نہیں تھے، دی گارجین کو بتایا کہ ماحولیاتی بیکٹیریا سے انسانی جینز میں مرض کے خلاف مزاحمت دیکھی گئی ہے۔
دریاؤں میں اینٹی بائیوٹکس کی مقدار جانوروں اور انسانی فضلے، ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ اور ادویات بنانے والے ذرائع کی آمیزش کے باعث بڑھ رہی ہے۔
جیسا کہ بنگلہ دیش کے ایک دریا میں منہ اور جِلد کے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی میٹرونڈیزول اینٹی بائیوٹک کی مقدار محفوظ سطح سے 300 گنا زیادہ تھی۔
سب سے عام اینٹی بائیوٹک ٹرمیتھوپرم جو پیشاب کی نالی کے انفیکشن کے علاج میں استعمال ہوتی ہے، 711 نمونوں میں سے 307 میں پائی گئی۔
سائنس دانوں نے بنگلہ دیش، کینیا، گھانا، پاکستان اور نائجیریا کے دریاؤں کو اس حوالے سے انتہائی آلودہ پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایشیا اور افریقہ میں صورتحال زیادہ ابتر ہے، تاہم حیران کن طور پر یورپ، شمالی اور جنوبی امریکہ میں بھی بعض مقامات پر اینٹی بائیوٹکس کی سطح بہت زیادہ تھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک عالم گیر مسٔلہ بن چکا ہے۔
یارک انوائرنمنٹل سسٹینیبلٹی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ پروفیسر ایلسٹیر باکسل کے مطابق تحقیق کے نتائج پریشان کن اور آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
’بہت سے سائنس دان اور پالیسی ساز اب اینٹی بائیوٹکس میں مزاحمت جیسے مسائل کے حوالے سے قدرتی ماحول کے کردار کو پہچاننے لگے ہیں۔ ہمارے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دریاؤں میں اینٹی بائیوٹکس کی آلودگی اہم مسٔلہ بن چکی ہے، جس کا حل کسی بڑے چیلنچ سے کم نہیں۔‘
’اس کے لیے ہمیں فضلے کو ٹھکانے لگانے، ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ کے ڈھانچے میں بھاری سرمایہ کاری، مزید سخت قوانین اور پہلے سے آلودہ جگہوں کی صفائی کرنا ہو گی۔‘
یونیورسٹی آف یارک کے پروفیسر جان ولکنسن کا کہنا ہے اینٹی بائیوٹکس کے حوالے سے اب تک ماحولیاتی نگرانی کا کام زیادہ تر یورپ، شمالی امریکہ اور چین میں کیا گیا ہے وہ بھی مٹھی بھر اینٹی بائیوٹکس کی اقسام کے بارے میں۔’ہم عالمی سطح پر اس مسئلے کی سنگینی سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں۔‘
ایسے ممالک میں جہاں پہلے اس حوالے سے کبھی نگرانی نہیں کی گئی، نئے اعداد و شمار اکھٹے کیے گئے ہیں جن کو فِن لینڈ کے درالحکومت ہلسنکی میں ہونے والے عالمی ماحولیاتی اجلاس میں پیش کیا جا رہا ہے۔