ٹیلی فلم ’ایک ہے نگار‘ پاکستان کی پہلی خاتون سرجن جنرل نگار جوہر کی زندگی پر بنائی گئی ہے جو ملک کی پہلی تھری سٹار خاتون جنرل ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں کسی حاضر سروس فوجی افسر کی زندگی کو اس طرح پردے پر پیش کیا گیا ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان کی بری، بحری، یا فضائی فوج سے متعلق جتنے بھی ڈرامے یا فلمیں بنی ہیں وہ یا تو فکشن تھیں یا پھر وہ جنگ میں جان سے جانے والے یا کم از کم ریٹائر ہونے والے فوجیوں کی زندگی پر بنائی گئی تھیں۔
پاکستان میں ایک خاتون کے لیے اس طرح کا سفر یقیناً پے در پے چیلنجز سے لبریز رہا ہوگا لیکن توقع کے برعکس وہ اس ٹیلی فلم میں بھرپور انداز میں سامنے آ نہیں سکا۔
ٹیلی فلم ’ایک ہے نگار‘ کا آغاز تو دلچسپ انداز میں ہوا اور آرمی میڈیکل کالج میں ریگنگ تک اس میں دلچسپی رہی، لیکن پھر کہانی بوجھل ہوتی چلی گئی۔
سرجن جنرل کے سفر میں نگار جوہر کے بم دھماکے کے زخمیوں کو طبی امداد دینے کے مناظر، بندوق چلانے کی ٹریننگ، اور دو فوجیوں کو سٹور سے ادویات چرا کر بازار میں بیچنے پر کورٹ مارشل کے احکامات کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر منظر نہیں تھا۔
کہانی میں بار بار یوں لگا جیسے ربط ٹوٹ رہا ہو، پھر بمشکل جوڑا گیا ہو۔ یہ ٹیلی فلم کمزور ہدایت کاری کا شکار ہوئی ہے کیونکہ اکثر مقامات پر تفصیلات کی شدت سے کمی محسوس ہوئی۔
کئی مقامات پر نگار اور جوہر کے رومانس کو غیرضروری طول دیا گیا اور کئی مرتبہ ادھورا چھوڑ دیا گیا۔
اس ٹیلی فلم کے ہدایت کار عدنان سرور ہیں جو اس سے پہلے ’شاہ‘ اور ’موٹرسائیکل گرل‘ نامی فلمیں بناچکے ہیں جو پاکستانی کے واحد اولمپک میڈلسٹ حسین شاہ اور موٹرسائیکل پر شمالی علاقوں کا سفر کرنے والی خاتون زینتھ عرفان کی زندگی پر بنائی گئی تھیں۔
اس ٹیلی فلم میں بھی وہی مسائل تھے جو ہمیں ’شاہ‘ اور ’موٹرسائیکل گرل‘ میں دیکھنے کو ملے کہ کہانی کہیں رکتی ہے اور کہیں کھو جاتی ہے۔
تاہم جو چیز اس ٹیلی فلم کو دیکھنے کے قابل بناتی ہے وہ اداکاروں کی پرفارمنس ہے۔ ہدایتکاری کی کمزوری کو بلاشبہ ماہرہ خان اور بلال اشرف نے اپنی نپی تلی کارکردگی سے بہت سہارا دیا۔
نگار جوہر کا کردار اس لحاظ سے مشکل تھا کہ اس میں 18 سال کی لڑکی سے لے کر 55 سال سے زیادہ کی خاتون کو پیش کرنا تھا۔
گھر والوں کو اپنی تعلیم کے لیے راضی کرنے سے لے کر آرمی مڈیکل کالج کی ریگنگ، پھر وہاں سے شادی، اور ترقی کی زینے سر کرتے ہوئے پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے مناظر، بندوق چلانے کی مشق ہو یا شعبہ حادثات میں بم دھماکے کے زخمیوں کی طبی امداد کے مناظر، ماہرہ خان نے کہیں بھی خود کو کردار سے باہر نہیں ہونے دیا۔
نگار جوہر کے والدین کی کار حادثے میں ہلاکت اور شوہر جوہر کی وفات پر بلک بلک کر رونے کے مناظر دیکھنے والوں کی آنکھیں میں نمی لے آتے ہیں۔
تاہم اتنا ضرور ہے کہ بریگیڈیئر، میجر جنرل اور پھر لیفٹینٹ جنرل بننے کے مناظر میں مجھے ان کے میک اپ میں کافی خامیاں نظر آئیں۔
جب بلال اشرف جیسے چھریرے بدن کا ہیرو توند نکال کر پھر سکتا ہے تو ماہرہ خان کے میک آرٹسٹ کو ذرا زیادہ محنت کرنا چاہیے تھی کہ وہ اصل کردار سے قریب تر ہوجاتیں مگر یہ بنیادی طور پر ہدایتکاری کے مسائل ہیں۔
نگار جوہر کے شوہر کا کردار بلال اشرف نے ادا کیا ہے، ان کا گیٹ اپ حقیقی جوہر سے بہت قریب تر تھا اسی وجہ سے وہ کردار میں آسانی سے ڈھل گئے۔
اگرچہ یہ کردار اس لحاظ سے مشکل تھا کہ اس میں انہیں ایک نسبتاً بوڑھا شخص بھی بننا تھا کیونکہ جوان اداکار ایسا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
بلال اشرف نے زندگی میں پہلی مرتبہ ٹی وی سکرین پر کام کیا ہے۔ بلال اور ماہرہ خان کی جوڑی فلم ’سپر سٹار‘ میں پہلے سے ہی مقبول ہے، اس بار فرق صرف یہ ہے کہ سینیما کی جگہ یہ رومانس ٹی وی سکرین پر تھا۔
بلال اشرف (جوہر) کے پاس ٹیلی فلم میں صرف دو ہی کام تھے، ماہرہ خان (نگار جوہر) سے محبت کرنا اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے اس کی مکمل حمایت اور مدد کرنا۔
بلال اشرف نے یہ بخوبی کرلیا، کھانے کی میز پر ہلکے پھلکے مزاحیہ سین بھی کرلیےاور ایکشن ہیرو سے رومینٹک ہیرو کا سفر طے کرلیا۔ معلوم نہیں کہ روزانہ کئی گھنٹے جِم میں گزارنے والے بلال نے کس دل سے توند نکال کر سین عکس بند کروائے ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس ٹیلی فلم کا محور نگار جوہر ہی کی ذات تھی اس لیے یہ پوری کی پوری ماہرہ خان ہی کے گرد گھومتی رہی جس میں کسی اور کے لیے نمایاں ہونا مشکل تھا، تاہم پھر بھی بلال اشرف نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
اس ٹیلی فلم کی اہم بات یہ ہے کہ آج تک پاکستان کی فوج سے متعلق جتنے بھی ڈرامے یا فلمیں میرے علم میں ہیں، ان میں کبھی آرمی چیف کا چہرہ نہیں دکھایا گیا۔ مشہور سیریل ’الفا، براوو، چارلی‘ میں جب چیف آف آرمی سٹاف ہسپتال میں عیادت کے لیے آتے ہیں تو چار ستارے والی گاڑی کے رکنے سے لے کر عیادت تک، کیمرہ پشت پر، یا دائیں بائیں رکھا گیا تھا۔
’ایک ہے نگار‘ میں یہ پہلی بار ہی ہوا ہے کہ ایک اداکار (توقیر ناصر) نے ایک فور سٹار جنرل یعنی چیف آف آرمی سٹاف کا کردار ادا کیا ہے جنہیں آرمی پروموشن بورڈ کی صدارت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں نگار جوہر کو میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کی پوسٹ پر ترقی دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل کی فوجی وردی کے سینے پر باجوہ نام کی نیم پلیٹ بھی لگی ہوتی ہے۔
100 منٹ طویل ٹیلی فلم ’ایک ہے نگار‘ ابتدائی طور پر چھ ستمبر کو نشر ہونا تھی مگر بعد میں اس کی تاریخ بدل دی گئی، یہ ٹیلی فلم ماہرہ خان کی کمپنی ’سول فرائی‘ کے بینر تلے بنائی گئی ہے اور اسے ماہرہ خان نے نینا کاشف کے ساتھ مل کر پروڈیوس کیا ہے۔
اگر آپ ماہرہ خان یا بلال اشرف کے مداح ہیں تو اس میں آپ کی پسند کا بہت کچھ موجود ہے۔