یوں تو کشمیریوں کا پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت پر خوش ہو کر جھومنا، سڑکوں پر نکل کر پٹاخے پھوڑنا اور سوشل میڈیا پر اپنی خوشی کا اظہار کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے مگر اس بار اس جشن کا کشمیریوں کو بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں بھارت کو پاکستان سے ہارے چھ دن گزر چکے ہیں، لیکن اس کا جشن منانے والے کشمیریوں کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات کا اندراج، جیلوں میں ڈالنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور ملازمتوں سے ’زبردستی‘ فارغ کرنے کی کارروائیاں لگاتار جاری ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کشمیر اور بھارت کی مختلف ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کے خلاف اب تک چار مقدمے درج کیے جا چکے ہیں۔ ان مقدمات میں سے اتر پردیش میں درج کیے جانے والے ایک مقدمے میں ’ملک سے بغاوت‘ جبکہ باقی تین میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
اتر پردیش اور پنجاب میں کشمیری طلبہ پر سخت گیر ہندو نظریات رکھنے والے افراد کی جانب سے جان لیوا حملے کیے گئے ہیں جبکہ کشمیر کے شعبہ صحت میں کام کرنے والی ایک خاتون ٹیکنیشن کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
’جھوٹے الزامات‘ پر بغاوت کا مقدمہ
اتر پردیش کے شہر آگرہ میں مقامی پولیس نے راجا بلونت سنگھ انجینئرنگ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں زیر تعلیم تین کشمیری طلبہ کے خلاف ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کی شکایت پر ’ملک سے بغاوت‘ کا مقدمہ درج کیا ہے۔
بی جے پی کی یوتھ ونگ کے لیڈران نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ کالج میں زیر تعلیم تین کشمیری طلبہ ارشد یوسف، عنایت شیخ اور شوکت احمد گنائی نے کرکٹ میچ میں پاکستان کی جیت کے بعد ’بھارت مخالف اور پاکستان حامی‘ نعرے لگائے۔
تاہم انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بی جے پی رہنماؤں کا دعویٰ حقیقت سے بعید ہے اور پولیس نے بھی ’جھوٹے الزامات‘ پر مبنی بی جے پی کی شکایت کو بنیاد بنا کر ان طلبہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا ہے۔
کشمیری طلبہ کی تنظیم ’جموں و کشمیر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ کے صدر ناصر کہویہامی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے آر بی ایس انسٹی ٹیوٹ آگرہ کی انتظامیہ اور طلبہ سے بات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ گرفتار کیے جانے والے طلبہ، جن پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، نے پاکستان کے حق میں کوئی نعرے بازی نہیں کی۔ ان طلبہ نے صرف وٹس ایپ پر سٹیٹس اپ لوڈ کیا تھا جس میں پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔‘
عدالت کے احاطے میں جان لیوا حملہ
ناصر کہویہامی نے بتایا کہ جمعرات کو جب پولیس نے ان طلبہ کو آگرہ کی عدالت میں پیش کیا تو وہاں بی جے پی سمیت مختلف کٹر ہندو تنظیموں کے کارکنوں اور مقامی وکلا نے ان پر جان لیوا حملہ کر دیا۔
’افسوس ناک بات یہ ہے کہ حملہ کرنے والوں میں آگرہ کی عدالت کے بعض وکلا بھی شامل تھے۔ کشمیری طلبہ پر کیا جانے والا یہ جان لیوا حملہ ناقابل قبول ہے۔ ایسی کارروائیاں ہم قطعی طور پر برداشت نہیں کریں گے۔
’کشمیری طلبہ پر حملہ کرنے والے افراد ’بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم، پاکستان مردہ باد اور دیش کے غداروں کو گولی مارو ۔۔۔‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔‘
کشمیری طلبہ کی تنظیم کے صدر نے بتایا کہ ہم نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک خط لکھا ہے جس میں ہم نے ان سے گزارش کی ہے کہ وہ اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر حل کریں۔
’ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ کے خلاف درج کیا جانے والا مقدمہ واپس لیا جائے کیوں کہ یہ سخت دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمے کی وجہ سے ان طلبہ کا کیریئر داؤ پر لگ چکا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے خط کا اب تک کوئی ردعمل برآمد نہیں ہوا ہے۔ ان طلبہ کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ ہم نے ان طلبہ کے لیے ایک وکیل کا انتظام بھی کیا ہے جنہوں نے مفت میں اپنی خدمات دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔‘
ناصر کہویہامی کا کہنا ہے کہ بھارت کے موجودہ حالات کے پیش نظر اس کی مختلف ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کو حد درجہ احتیاط کرنی چاہیے۔
’میں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے میچ سے پہلے ہی کشمیری طلبہ سے کہا تھا کہ وہ ایسی کسی بھی حرکت سے اجتناب کریں جو مصیبت کو دعوت دینے کا موجب بنے۔ ہمارے طلبہ تو جانتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات کیسے ہیں۔‘
ایک رپورٹ کے مطابق آگرہ میں ’ملک سے بغاوت‘ کے مقدمے کا سامنا کرنے والے تینوں کشمیری طلبہ کو آگرہ کی عدالت نے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنی دو سلسلہ وار ٹوئٹس میں کشمیری طلبہ پر آگرہ کی عدالت میں وکلا کے حملے کو ناقابل قبول اور مقامی پولیس کے کردار کو مشکوک قرار دیا ہے۔
’کالج انتظامیہ نے ان کو کلین چٹ دے دی اور تصدیق کہ انہوں نے کوئی نعرہ بازی نہیں کی لیکن کالج انتظامیہ کی کلین چٹ کو خاطر میں لانے کی بجائے اتر پردیش کی پولیس ان غریب اور لاچار بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔‘
The college authorities have given these students a clean chit & confirmed they didn’t shout any slogans. Rather than take the college assurance at face value the UP police is victimising these poor kids. https://t.co/R1GSTumV6d
— Omar Abdullah (@OmarAbdullah) October 29, 2021
انہوں نے کہا: ’وکلا کا ان طلبہ کے ساتھ سلوک ناقابل قبول ہے اور پولیس کا کردار بھی مشکوک ہے۔ اتر پردیش میں انتخابات قریب ہیں۔ وہاں جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ کشمیری طلبہ کے ساتھ دوستی کرنے کی بجائے انہیں سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ان طلبہ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا: ’کشمیری طلبہ کے خلاف جموں و کشمیر کے اندر اور باہر جاری کریک ڈاؤن قابل مذمت ہے۔ دو سال کے جبر کے بعد جموں وکشمیر کی صورتحال بھارتی حکومت کے لیے چشم کشا ہونی چاہیے تھی اور انہیں اصلاحی اقدام کرنے چاہیے تھے۔ بی جے پی کی فرضی حب الوطنی سے بھارت کے تصور کی تحقیر ہو جاتی ہے۔ ان طلبہ کو فوری طور رہا کیا جائے۔‘
Crackdown on Kashmiri students both within J&K & outside is reprehensible. Situation in J&K after two years of suppression should’ve been an eye opener for GOI & lead to course correction.BJPs pseudo patriotism disregards the idea of India. Release these students immediately https://t.co/3kCVPns36x
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) October 28, 2021
اہل خانہ کا احتجاج
آگرہ کے کالج میں پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کے ’غلط الزامات‘ میں گرفتار تین کشمیریوں میں سے ایک طالب علم کے اہل خانہ نے جمعے کو سری نگر کی پریس کالونی میں ان کی رہائی کے لیے احتجاج کیا ہے۔
شوکت احمد گنائی نامی طالب علم کی والدہ نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا: ‘ہم نے زمین اور دیگر جائیداد بیچ کر بیٹے کو باہر پڑھنے کے لیے بھیجا تھا۔ ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ اس کو رہا کریں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میرے بیٹے کا والد مزدوری کرتا ہے۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو ہم اس کے لیے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہیں۔‘
پنجاب میں کشمیری طلبہ پر حملہ
24 اکتوبر کو پنجاب کے ضلع سنگرور میں واقع بھائی گرداس انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک ہوسٹل میں مقیم کشمیری طلبہ پر مبینہ طور پر ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے اس وقت حملہ کیا جب اولالذکر پاکستان کی جیت کا جشن منا رہے تھے۔
کالج میں زیر تعلیم ایک کشمیری طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہوسٹل میں مقیم سبھی طلبہ اپنے اپنے کمروں میں میچ دیکھ رہے تھے۔ پاکستان کی جیت پر جب ہم نے تھوڑا سا جشن منایا تو بہار سے تعلق رکھنے والے طلبہ ہمارے کمروں میں داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’طرفین کے درمیان تلخ کلامی کے بعد ہاتھا پائی شروع ہوئی جس میں کچھ کشمیری طلبہ زخمی ہوئے۔ انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے بروقت مداخلت کر کے صورتحال کو مزید خراب ہونے نہیں دیا۔ پنجاب پولیس نے کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے جو ایک اچھی بات ہے۔‘
ناصر کہویہامی نے بتایا کہ انہوں نے بھائی گرداس انسٹی ٹیوٹ میں کشمیری طلبہ پر ہونے والے حملے کا معاملہ سنگرور کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سواپن شرما کے ساتھ اٹھایا تھا۔ ’مسٹر سواپن شرما نے مجھے بتایا کہ طرفین نے ایک دوسرے سے معافی مانگ لی ہے اور مقدمے نہ درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
میڈیکل کالجوں کے طلبہ پر مقدمے
کرکٹ میچ میں پاکستان کی بھارت پر فتح کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں کشمیر کے دو میڈیکل کالجوں کے ہوسٹلوں میں مقیم طلبہ کو پاکستان کی جیت کا جشن مناتے ہوئے اور اس ملک کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
کشمیر پولیس نے ان ویڈیوز کا سخت نوٹس لے کر ان دونوں میڈیکل کالجوں کے طلبہ کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق سخت قانون ’یو اے پی اے‘ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمے درج کیے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پولیس نے شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ کے ہوسٹل اور گورنمنٹ میڈیکل کالج کرن نگر کے ہوسٹل میں پیش آنے والے واقعات کا سخت نوٹس لے کر پولیس تھانہ صورہ اور پولیس تھانہ کرن نگر میں مقدمے درج کیے ہیں۔
’ملوثین کی شناخت کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔‘
اس دوران کشمیر پولیس نے ضلع سانبہ میں پاکستان کی جیت کا جشن منانے کے الزام میں کم از کم سات افراد کو گرفتار کیا ہے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ یہ گرفتاریاں سوشل میڈیا پر پاکستان کی بھارت پر جیت کا جشن منانے کی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عمل میں لائی گئی ہیں۔
نوکری سے برطرفی
کشمیر کے محکمہ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن نے پاکستان کی جیت کا جشن منانے کے پاداش میں ایک خاتون ملازم کو نوکری سے بر طرف کر دیا ہے۔
گورنمنٹ میڈیکل کالج راجوری کے پرنسپل کی جانب سے جمعرات کو جاری ایک حکم نامے میں کہا گیا کہ ’وٹس ایپ سٹیٹس‘ کے ذریعے پاکستان کی جیت کا جشن منانے پر ایک آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن کو نوکری سے بر طرف کیا جا رہا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے: ’مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کی وساطت سے ایک وائرل ویڈیو ہماری نوٹس میں آئی ہے جو ڈی ایس پی ہیڈکوارٹرز راجوری نے بھی ہمیں وٹس ایپ کے ذریعے بھیجی ہے۔
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ محترمہ صفیہ مجید آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن جو گورنمنٹ میڈیکل کالج و ہسپتال راجوری میں تعینات ہے، نے پاکستان کی بھارت پر جیت کا جشن اپنے وٹس ایپ سٹیٹس کے ذریعے منایا ہے۔ اس قسم کی حرکت قوم کے ساتھ بے وفائی کرنے کے مترداف ہے۔‘