طالبان کے زیر اقتدار ایک جامع اور آزاد افغانستان کا مطالبہ کرنے والی عالمی طاقتوں اور امدادی گروپوں کو نئے افغان حکمرانوں سے ملاقات کے لیے صرف مردوں پر مشتمل وفود کابل بھیجنے پر تنقید کا سامنا ہے۔
اگست میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان نے اپنی نئی عبوری حکومت میں ایک بھی خاتون کو شامل نہیں کیا جب کہ لڑکیوں پر تعلیم اور ملازمت کرنے پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں جس کی بیرونی دنیا میں مذمت کی جا رہی ہے۔
لیکن کچھ حکومتوں اور امدادی گروپوں کی افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں خواتین کی نمائندگی بھی کچھ خاص نظر نہیں آئی۔
افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن کی جلاوطن سربراہ شہرزاد اکبر نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: ’آپ کے وفود میں سینیئر خواتین کو طالبان کے ساتھ بات چیت کی قیادت کرنی چاہیے۔۔۔ خواتین کو ان سے خارج نہ کریں۔‘
حکومتوں اور امدادی ایجنسیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’طالبان کی جانب سے خواتین کو معمولات زندگی سے ہٹانے کے عمل کو تقویت نہ دیں۔‘
ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ ہیتھر بار نے طالبان سے کابل میں ملاقات کرنے والے وفود کی فہرست بنائی ہے، جسے انہوں نے ’ساسیج پارٹی‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔
بار نے اے ایف پی کو بتایا: ’غیر ملکی حکومتوں اور خاص طور پر امدادی تنظیموں کو خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے مثال بننے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کو بھی طالبان کی خواتین کے حوالے سے پالیسی کو تقویت نہیں دینا چاہیے۔
طالبان نے غیر ملکی نمائندوں کے گروپوں کے ساتھ بند کمرے میں ہونے والی ملاقاتوں کی درجنوں تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں، جن میں ایک بھی خاتون دکھائی نہیں دیتی۔
رواں ماہ کے آغاز میں برطانوی ایلچی سائمن گاس طالبان کے عبوری نائب وزرائے اعظم عبدالغنی برادر اور عبدالسلام حنفی کے درمیان ہونے والی بہت سی ملاقاتوں میں نظر آئے۔
ایک برطانوی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ایک اتفاق تھا کہ خصوصی ایلچی اور مشن کے سربراہ دونوں ہی مرد تھے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اور انٹیلی جنس چیف کے ساتھ کابل آنے والے گروپ میں بھی ایک بھی خاتون شامل نہیں تھی۔
غنی حکومت اور طالبان کے درمیان گذشتہ سال دوحہ میں ناکام امن مذاکرات میں شامل فوزیہ کوفی نے اس پر اپنے غصے کا اظہار کیا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’عالمی رہنما کے طور پر جب وہ (غیر ملکی نمائندے) خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو انہیں اپنے عمل سے بھی اسے ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ محض ایک سیاسی بیان نہیں ہے۔‘
ہیتھر بار نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ طالبان اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کی بے شمار تصاویر میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ ان میں خواتین کہیں بھی شامل نہیں تھیں۔
دوسری جانب فہرست میں شامل تنظیموں نے خواتین کے حقوق کے لیے اپنے عزم کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ ملاقاتوں میں خواتین کو شامل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
لیکن کئی عہدیداروں نے اعتراف کیا کہ طالبان کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں خواتین شامل نہیں تھیں۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی، اقوام متحدہ کے بچوں کے لیے ادارے اور عالمی تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے وضاحت کی کہ انہوں نے طالبان سے ملاقات کے لیے صرف اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل چھوٹے وفود افغانستان بھیجے تھے، جو سب کے سب مرد تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز نے کہا کہ آخری لمحات میں شیڈول میں تبدیلی سے ان کے عملے کی ایک خاتون رکن وفد کا حصہ بننے سے قاصر رہی اور یوں یہ ملاقات صرف مردوں کی تقریب میں تبدیل ہو گئی۔
بار نے مزید کہا کہ ’مردوں سے بھرے کمرے میں خواتین کے حقوق کے بارے میں خدشات پر آواز اٹھانا بہت عجیب لگتا ہے۔‘
اقوام متحدہ نے طالبان کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بات چیت کے لیے افغانستان میں اپنے پہلے آل ویمن مشن کا اعلان کیا ہے۔
اگرچہ طالبان نے کبھی بھی خواتین کو اپنی ٹیم میں شامل نہیں کیا تاہم گروپ کے رہنماؤں نے دوحہ مذاکرات سمیت متعدد مواقعوں پر خواتین سے ملاقاتیں کی ہیں۔
قتل کی دو کوششوں میں بچ جانے والی فوزیہ کوفی نے پہلے پہل دوحہ مذاکرات کا حصہ بننے سے ہچکچاہت کا مظاہرہ کیا تھا لیکن طالبان کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھنے نے انہیں خواتین کے ’طاقتور‘ ہونے کا احساس دلایا تھا۔
انہوں نے غیر ملکی حکومتوں اور عالمی تنظیموں کے حوالے سے کہا کہ اب وہ خواتین کو میز پر لانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
ان کے بقول: ’سب سیاست کر رہے ہیں۔‘