امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے ایک آزاد جائزے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران 29 اگست کو کیا گیا ڈرون حملہ بد انتظامی یا غفلت کا نتیجہ نہیں تھا جبکہ اس جائزے میں کسی تادیبی کارروائی کی سفارش بھی نہیں کی گئی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی فضائیہ کے لیفٹیننٹ جنرل سیمی سیڈ کی جانب سے کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ حملے کے دوران مواصلاتی نظام میں خلل اور بمباری کے ہدف کی شناخت اور تصدیق کے عمل میں خرابی کا علم ہوا ہے۔
انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ غلطی سے ہونے والا یہ حملہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے محتاط اقدامات کے باوجود پیش آیا۔
لیفٹیننٹ جنرل سیڈ نے کہا: ’میں نے محسوس کیا کہ دستیاب معلومات اور تجزیے کے پیش نظر وہ غلط نتیجے پر پہنچے تھے لیکن کیا اس کی بنیاد پر جو نتیجہ اخذ کیا گیا وہ درست تھا؟ یہ غیر معقول نہیں تھا۔ یہ صرف غلط ثابت ہوا۔‘
لیفٹیننٹ جنرل سیڈ امریکی فضائیہ کے انسپکٹر جنرل ہیں اور انہیں اس لیے بھی آزاد خیال کیا جاتا ہے کیونکہ ان کا افغانستان کے آپریشنز سے کوئی براہ راست تعلق نہیں رہا۔
ان کے جائزے میں کہا گیا کہ 29 اگست کو کیے گئے ڈرون حملے پر غور اس تناظر میں کیا جانا چاہیے جب خودکش بم دھماکے کے بعد کابل ہوائی اڈے پر فوجیوں اور شہریوں کو لاحق خطرات کے بارے میں کئی معلومات سامنے آ رہی تھیں۔
رواں برس اگست کے وسط میں طالبان کی جانب سے کابل کا کنٹرول حاصل کرلینے کے بعد ہزاروں غیر ملکی اور افغان شہری ہوائی اڈے پر جمع ہو گئے تھے اور اس دوران داعش کی جانب سے کیے گئے خود کش حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل سیڈ نے اپنے جائزے میں مزید کہا: ’میں نے محسوس کیا کہ حملے کا فیصلہ کرنے والے حکام اور ان کی مدد کرنے والے دیگر اہلکاروں کے درمیان بہتر رابطوں نے اس بمباری کے بارے میں مزید شکوک پیدا کر دیے ہوں گے، لیکن آخر میں اسے روکا نہیں جا سکا۔‘
پینٹاگون نے لیفٹیننٹ جنرل سیڈ کو 29 اگست کو سفید ٹویوٹا کرولا سیڈان پر ہونے والے ڈرون حملے کی تحقیقات کا فریضہ سونپا تھا، جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے سات بچوں سمیت دس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی کے 37 سالہ ڈرائیور ضمیری احمدی ایک امریکی این جی او کے ملازم تھے۔
اس گاڑی کو میزائل سے اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا، جب کار گھر کے گیراج میں داخل ہو رہی تھی اور بچے ضمیری کو خوش آمدید کہنے کے لیے ان کی جانب لپکے تھے۔
17 ستمبر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کینزی نے اس فضائی حملے کو ایک ’افسوس ناک غلطی‘ قرار دیا تھا اور کئی ہفتوں کی تردید کے بعد تسلیم کیا کہ اس حملے میں داعش کے رکن کے بجائے بے گناہ شہری مارے گئے تھے۔
ضمیری احمدی نے بھی طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خاندان سمیت امریکہ منتقل ہونے کی درخواست کر رکھی تھی۔
احمدی کی کار اور ممکنہ خطرے کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات اس وقت سامنے آئیں جب ڈرون حملے سے چند روز قبل داعش کی خراسان شاخ کے ایک خودکش بمبار نے کابل ایئرپورٹ کے گیٹ پر 13 امریکی فوجیوں اور 169 افغانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
امریکہ اس وقت اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہزاروں امریکی، افغان اور دیگر اتحادیوں کو نکالنے کے لیے کام کر رہا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل سیڈ نے نتیجہ اخذ کیا کہ امریکی افواج کو حقیقی طور پر یقین ہے کہ وہ جس کار کی نگرانی کر رہے تھے وہ ایک ممکنہ خطرہ تھا اور انہیں اس کے ایئرپورٹ کے قریب پہنچنے سے پہلے اس پر حملہ کرنے کی ضرورت تھی۔
انہوں نے پینٹاگون کی بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ’ان کے پاس موجود معلومات اور تجزیے کی بنیاد پر جو حقیقی تصویر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ یہ امریکی افواج کے لیے ممکنہ خطرہ ہے۔ تاہم یہ ایک غلطی ہے۔ یہ ایک قابل افسوس غلطی ہے۔ میں اس کے نتائج کو سمجھتا ہوں لیکن یہ مجرمانہ طرز عمل، بدانتظامی یا غفلت کا نتیجہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس دن کی ویڈیو کے بارہا جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ حملہ شروع ہونے سے دو منٹ پہلے اس بات کا ثبوت تھا کہ ایک بچہ سٹرائیک زون میں موجود تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم لیفٹیننٹ جنرل سیڈ نے کہا کہ سٹرائیک سیل میں موجود فوجیوں نے بچے کو نہیں دیکھا۔
ان کے بقول: ’میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ 100 فیصد واضح نہیں ہے۔‘
دوسری جانب امریکی این جی او ’نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل‘، جس کے لیے حملے میں ہلاک ہونے والے ضمیر احمدی کام کرتے تھے، کے صدر سٹیون کوون کہا کہ وہ اس جائزے سے سخت مایوس ہوئے ہیں۔
کوون نے ایک بیان میں کہا: ’فضائیہ کے انسپکٹر جنرل کے مطابق یہ ایک غلطی تھی لیکن کسی نے غلط کام نہیں کیا اور میں حیران ہوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
’واضح طور پر جائزے میں پیش کیے گئے اچھے فوجی ارادے کافی نہیں ہیں، جس کے نتیجے میں 10 افغان شہریوں کی قیمتی جانیں ضائع ہو جائیں اور اس سے فوج کی شہرت خراب ہو جائے۔‘
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس رپورٹ کی توثیق کی ہے جس میں کئی پیشہ ورانہ سفارشات تو پیش کی گئی ہیں لیکن کسی بھی اہلکار کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش نہیں کی گئی۔