کابل حملہ: ’وہاں کیسے جائیں جہاں دوستوں کے خون کے دھبے ہیں؟‘

گذشتہ روز کابل یونیورسٹی میں شدت پسندوں کے حملے میں بچ جانے والے طلبہ اور استاد نہایت غمگین اور واپس جانے سے خوف زدہ ہیں۔

کابل یونیورسٹی میں حملے کے بعد صحافی ایک تباہ شدہ کلاس روم میں کھڑے ہیں (اے ایف پی)

کابل یونیورسٹی میں پبلک ایڈمنسٹریشن کے تیسرے سمسٹر کے طالب علم سمیع اللہ واسع کو منگل کو گھر میں کچھ ضروری کام تھا جس وجہ سے یونیورسٹی نہیں گئے۔ یوں انہیں یونیورسٹی پر حملے کے دل خراش مناظر کو تو نہ دیکھنا پڑا لیکن اپنے ساتھیوں پر جو گزارا اس سے وہ نہایت غمگین ہیں۔

حملے کے دوران سمیع اللہ مسلسل اپنی کلاس کے دوستوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی میں نہ ہونا ان کے لیے اور بھی مشکل وقت تھا کیونکہ ’آپ کے دوست وہاں حملے کی جگہ پر موجود ہیں اور آپ ان کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔‘

سمیع  اللہ سے جب ہم نے بات کرنے کی کوشش کی تو پہلے انہوں نے بتایا کہ وہ بہت ٹراما میں ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا کہ ان کے قریبی دوستوں کو بغیر کسی وجہ کے یونیورسٹی کے اندر عین کتابوں کے درمیان  ہلاک کیا گیا۔

میں ان سے فون پر بات کر رہا تھا تو ان کی آواز دھیمی ہو گئی اور وہ اپنے احساسات بیان نہیں کر پا رہے تھے۔ تاہم انہوں نے ہمت کر کے کچھ ہی لمحے بعد بتایا: ’ہم کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کریں کیونکہ نہ ہمیں قاتل کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہم قاتل کے ساتھ کچھ کر سکتے ہیں۔ صرف ہاتھ مروڑ رہے تھے اور اس کرب کو برداشت کر رہے ہیں۔‘

سمیع نے اپنے ایک قریبی دوست محمد راحد کے بارے میں بتایا کہ ہر وقت مسکراہٹ چہرے پر بکھیرنے والے اور ہزاروں امیدیں لے کر یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے محمد راحد کو بھی شدت پسندوں نے نہیں بخشا اور ان کو بھی گولیوں سے چھلنی کردیا۔

انہوں نے کہا: ’راحد یونیورسٹی میں مسکراہٹ کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ وہ موٹیوشنل سپیکر بھی تھے اور سوشل میڈیا پر امید اور زندگی کے حوالے سے مختلف پیغامات بھی ریکارڈ کر کے پوسٹ کرتے تھے۔ مجھے ہمیشہ کہتے تھے کہ سمیع، ہمیشہ مسکراتے رہنا اور ہمیشہ پر امید رہنا۔‘

کابل یونیورسٹی کو منگل کو شدت پسندوں نے اس وقت نشانہ بنایا جب یونیورسٹی میں کتابوں کا ایک میلا سجایا گیا تھا جس میں افغان حکومت اور ایران کے سرکاری وفد کی آمد متوقع تھی۔ افغان حکومت کے مطابق تین حملہ آور افغان سیکورٹی فورسز کے یونیفارم میں یونیورسٹی کے عمارت میں داخل ہوئے تھے اور طلبہ کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی حملے کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طلبہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے یونیورسٹی کی دیواروں کو پھلانگ کر باہر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

افغان سیکورٹی فوسرز کے مطابق چھ گھنٹے تک طلبہ کو یرغمال بنانے کے بعد حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا  اور حملے کے نیتجے میں طلبہ سمیت یونیورسٹی کے 22  افراد  ہلاک ہوئے۔ جہادی گروپوں کو مانیٹر کرنے والے سائٹ انٹل ادارے کے مطابق حملے کی ذمہ داری داعش کے افغانستان کے چیپٹر نے قبول کی ہے۔

داعش کی طرف سے جاری بیان مین کہا گیا ہے کہ ان کے دو حملہ آوروں نے یونیوسٹی میں جاری سرکاری ججز کے ایک مجمعے کو نشانہ بنایا ہے  جس میں انہوں نے 80 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا، تاہم افغان حکومت 22 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتی ہے۔

کابل یونیورسٹی کا شمار افغانستان کی معتبر اور تاریخی جامعات میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 1932 میں رکھی گئی ہے ۔اس جامعہ میں  تقریباً 22 شعبہ جات ہیں جس کے تحت 896 ذیلی شعبہ جات چل رہے ہیں ۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق ان شعبہ جات میں 18 ہزار  کے قریب طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔حال ہی میں پاکستان نے کابل یونیورسٹی میں علامہ اقبال بلڈنگ کا تحفہ بھی کابل یونیورسٹی کو دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یونیورسٹی کے اندر سیکورٹی سخت ہوتی ہے تاہم سمیع اللہ کے مطابق افغان حکومت پر بھی انگلی اٹھتی ہے کہ اتنی سخت سیکورٹی میں تین حملہ آور یونیورسٹی کی عمارت میں کیسے داخل ہوگئے۔

سمیع اللہ نے کہا: ’یونیورسٹی کے تین بڑے داخلی دروازے ہیں جس کو شمالی، جنوبی اور مغربی دروازے کہتے ہیں جن پر ہر ایک بندے کو چیک کیا جاتا ہے، حتی کہ کوئی ایک سگریٹ بھی اندر نہیں لے جا سکتا تو تین حملہ آور اسلحے سمیت افغان سیکورٹی کے یونیفارم میں کسیے داخل ہوگئے؟ ہم کس سے اپنی فریاد کریں اور کس سے انصاف کا مطالبہ کریں؟‘

’وہاں کیسے جائیں  گے؟‘

یونیورسٹی واپس جانے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی تو ان کی حالت ایسی ہے کہ دوبارہ جانے کا سوچا تک نہیں، لیکن اس میں وقت لگے گا کہ ہم یونیورسٹی جا کر  تعلیم اسی شوق سے شروع کریں جو حملے سے پہلے تھا۔

انہوں نے کہا: ’یونیورسٹی اور وہ عمارت جہاں پر ہمارے دوستوں کے خون کے دھبے موجود ہوں، آپ خود  اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنا درد ناک اور مشکل ہوگا کہ ہم دوبارہ یونیورسٹی جا کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔‘

نا امیدی ظاہر کرتے ہوئے سمیع اللہ نے کہا: ’اللہ نے ہمیں عقل دی ہے اور ہم ان ساری چیزوں اور حالات کو دیکھتے ہیں اور مجھے ذاتی طور پر کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے کہ افغانستان میں ایک دن امن کی فضا قائم ہوگی اور ہمیں مزید لاشیں نہیں اٹھانی پڑیں گی۔‘

حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے طلبہ کے حوالے سے ان کے دوستوں اور اساتذہ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار  بھی کر رہے ہیں۔ شبنم صالیحی کابل یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ہم نے کوشش کی کہ ان سے رابطہ کر سکیں لیکن شبنم کے ایک دوست نے بتایا کہ حملے کی وجہ سے وہ شدید کرب میں ہیں اور وہ بات نہیں کر سکیں گی۔

تاہم  انہوں نے فیس بک پر لکھا  کہ وہ اپنے شاگردوں کے پھول جیسے چہروں کو کبھی نہیں بھلا سکتیں۔

حملے کے وقت کے مناظر بیان کرتے ہوئے شبنم نے لکھا کہ ان کو شاگردوں کو مدد کے لیے پکارت ہوئے پیغامات موبائل پر موصول ہوئے لیکن وہ ان کے لیے کچھ نہ کر پائیں۔  ’میں کیسے یہ مناظر بھلا سکوں گا؟ مجھ میں اتنی ہمت  اب نہیں رہی کہ ان  کلاسوں میں دوبارہ جا کر پڑھا سکوں جہاں میرے شاگردوں کو شہید کیا گیا۔‘

افغانستان کے جامعات پر یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے 2016 میں امریکہ کی اشتراک سے چلنے والی امریک یونیورسٹی آف افغانستان پر بھی حملہ کیا گیا تھا جس میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 44 زخمی ہوئے تھے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا