گذشتہ چند ماہ میں امریکی ڈالر نے جو اڑان بھری ہے وہ کسی کے قابو میں نہیں اور اسی باعث ملک میں بڑھتی مہنگائی سے اشیا ضروریات عوام کی پہنچ سے دور چلی گئی ہیں۔
بات کریں فیشن بزنس کی تو اس شعبے میں بھی عید کے باوجود مندی کا رحجان ہے۔
بھاری کام والے کپڑے بنانے والے کاریگر محمد شہباز کے خیال میں خوبصورت کپڑوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا مٹیریل بہت زیادہ مہنگا ہو گیا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: یہ موتی تین سو سے پانچ سو روپے کے ہوگئے ہیں، اسی طرح سٹون ہے، جس کے ہر پیکٹ کے پیچھے چالیس، پچاس روپے اضافہ ہو رہا ہے۔ اب جب ریٹس بڑھ گئے ہیں تو کام بھی اس طرح سے نہیں ہورہا۔
شہباز کے مشاہدے سے متفق درزی ماسٹر محمد بلال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس بار ان کے لیے عید کا سیزن آیا ہی نہیں کیونکہ دکان پر رش نہ ہونے کے برابر ہے۔
’دھاگے کی ایک نلکی پانچ روپے میں مل جایا کرتی تھی مگر اب وہ گیارہ روپے میں دستیاب ہے، اسی طرح کچھ چیزیں جو 20 روپے فی میٹر ملتی تھیں وہ 50 روپے میٹر تک چلی گئی ہیں یعنی ہر شہ دوگنی مہنگی ہو گئی ہے۔‘
کپڑے کے کاروبار سے منسلک افراد کس مشکل سے گزر رہے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے رابطہ کیا ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی صدر اور خود ایک فیشن ڈیزائنر فائزہ امجد سے۔
فائزہ کے خیال میں ڈالر کی قیمت ڈیڑھ سو روپے تک پہنچنے سے ان کے اور ان کی دیگر ساتھی خواتین جو اس کاروبار سے منسلک ہیں کافی دشواری کا سامنا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب تو گاریگر بھی کام پر نہیں پہنچ پاتے کیونکہ ڈالر کے ساتھ پٹرول کی قیمت بھی بڑھی تو وہ تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
فائزہ نے امپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ جو لوگ پہلے 105 یا 110 روپے فی ڈالر کے حساب سے آرڈر بک کروا رہے تھے اب ان کے لیے 150 روپے کے حساب سے مال خریدنا ناممکن ہو رہا ہے۔
فائزہ کے خیال میں ایک لحاظ سے یہ اچھی بات ہے کہ اگر ہم امپورٹ نہیں کریں گے تو اپنی ایکسپورٹ اور مصنوعات پر توجہ دیں گے۔ ’یہ ٹائم بی پاکستانی اینڈ بائے پاکستانی مہم چلانے کا ہے۔‘
فائزہ کے خیال میں لوگوں کی قوت خرید کافی حد تک کم ہو گئی ہے اور جو لوگ پہلے دس جوڑے خرید رہے تھے، سب گھر والوں کے لیے تحائف بھی لیتے تھے وہ اب اس طرح سے نہیں کر رہے۔
مردانہ فیشن کے لیے مشہور فیشن ڈیزائنر منیب نواز کا خیال بھی فائزہ سے کچھ مختلف نہیں۔
ان کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مقامی طور پر بنی چیز ہم باہر بھیجتے ہیں وہاں سے کسی بڑے برینڈ کا ٹھپہ لگتا ہے اور اسے ہم ڈالرز میں واپس خرید لیتے ہیں۔
منیب کہتے ہیں کہ مہنگائی کا اثر تو ہونا ہی ہے کیونکہ اس انڈسٹری میں بہت کچھ امپورٹ ہوتا ہے۔ بکرم، چیسٹ پیسز، شولڈر پیسز، بٹنز، زپس آتی ہیں۔ پہلے اگر کپڑا ایک ہزار ڈالر کا امپورٹ ہوتا تھا اب اس کی قیمت پچاس فیصد بڑھ گئی ہے۔
’سوئیوں کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے، اثر تو ہوا ہے مگر کیا اب ہم ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں؟ اپنے پیسے کو گالیاں دینا شروع کردیں؟ یہ ڈیزائنر کا فیصلہ ہے کہ وہ کیا استعمال کریں اور کیسے استعمال کریں تاکہ گاہک کو کم سے کم تکلیف ہواور ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوسکے۔‘
منیب کے خیال میں عید پر ویسے ہی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور ایسا ہر سال ہوتا ہے۔’بے شک آپ کچھ بھی لے رہے ہوں یہ طریقہ غلط ہے کیونکہ ہمارے کاروباری طبقے نے یہ سوچ بنائی ہوئی ہے کہ عید کے ٹائم پر ہم خریداروں سے جتنا زیادہ نچوڑ سکیں نچوڑ لیں۔‘
اس ساری صورتحال کے بارے میں ماہر معاشیات اکرام الحق کہتے ہیں کہ ملک کی خراب معاشی حالت کا سب سے زیادہ نقصان چھوٹے اور درمیانے کاروباری حضرات کو ہوتا ہے کیونکہ وہ بالکل بھی اس قابل نہیں رہتے کہ وہ اپنی چیزوں کو اُس لاگت پر تیار کر سکیں جس لاگت پر وہ مارکیٹ میں بکیں۔
’جب لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے تو مارکیٹ کے اندر تناؤ آتا ہے جس کا پہلا شکار یہی چھوٹے اور درمیانے طبقہ کے کاروباری افراد ہوتے ہیں۔‘
اکرام نے مزید کہا: ہم ایک ایسا ملک ہیں جہاں ہم نے ایسی چیزوں کی کھپت پر توجہ نہیں دی جو باہر کے ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کا لوکل انڈسٹری پر برا ثر ہوتا ہے۔ پھر روز گار پیدا نہیں ہوتا، ظاہری بات ہے جب طلب کم ہو گی تو اس کا اثر رسد پر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا جب تک ہم اپنی ایکسپورٹ نہیں بڑھائیں گے اور امپورٹ کا متبادل نہیں دیتے لوکل انڈسٹری نہیں بڑھے گی اور ہم اس مشکل کا شکار رہیں گے۔