ملک میں چینی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر کھڑی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل حسن کے مطابق یہ بحران سندھ حکومت کی بد انتظامی اور صوبے میں تین شوگر ملز بند ہونے کے باعث پیدا ہوا۔ البتہ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ صوبے میں کوئی بحران نہیں اور سٹاک میں ڈیڑھ ماہ تک کی چینی موجود ہے۔
دوسری جانب شوگر ملز کے مالک اور معاشی تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کے مطابق اگلے دس سے پندرہ دنوں میں چینی کی قیمتوں میں لازمی طور پر کمی آئے گی اور چینی 90 روپے فی کلو کے بھاؤ میں ملے گی۔ اس لیے عوام اگلے دو ہفتوں تک اپنے گھروں میں موجود چینی کو کفایت شعاری سے استعمال کریں۔
معاملہ کیا، قیمتیں کب اور کتنی کم ہوں گی؟
وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبل قوم سے خطاب کے دوران کہا کہ چینی کی قیمت میں اس یک دم اضافے کی ایک وجہ یہ بتائی کہ سندھ میں تین شوگر ملز بند کیے جانے کی وجہ سے چینی کی قیمت 140 تک پہنچی ہے۔
تاہم اس حوالے سے سندھ کے افسر برائے شگر کین ملوک چننا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وزیر اعظم نے جن تین ملوں کے بند ہونے کا ذکر کیا یہ ملز پچھلے دس سے بارہ سالوں سے بند ہیں ہے اس لیے ابھی ان کی وجہ سے بحران پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔‘
جب کہ وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل حسن کا کہنا ہے کہ ’وفاقی حکومت نے چینی کی کھپت کے حساب سے پوری پلاننگ کر کے چینی منگوائی ہوئی ہے لیکن بیچ میں ایک گیم کھیلی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کیا سندھ حکومت کیا کر رہی ہے؟ چینی کا بحران ہے مگر سندھ حکومت خاموشی سے بیٹھی ہوئی ہے۔ اگر کسان کو آپ پیسے نہیں دیں گے اور اس کا مال نہیں اٹھائیں گے، وقت پر (گنے کی) کرشنگ شروع نہیں کریں گے تو اگلی فصل یعنی گندم تاخیر کا شکار ہوجائے گی۔ اگر سیاست کر کے ہمیں نقصان پہنچانا ہے ایک دوسرے کو تو اس کا کوئی حل نہیں ہے۔‘
گزشتہ ماہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امورِ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے بھی وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’صوبہ میں گنے کا سیزن شروع ہو نے کے باوجود بھی کرشنگ شروع نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے سندھ میں گنے کے کاشتکاروں کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے اور ملک میں افراطِ زر پیدا ہو رہا ہے۔ ضابطے کے مطابق سندھ میں گنے کی کرشنگ ہر سال یکم اکتوبر کو شروع ہو ہونی چاہیئے مگر حکومت سندھ نے اس بار جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کئے اور گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی۔ اس کا نقصان گنے کے کاشتکاروں کو ہو رہا ہے گنا سوکھ رہا ہے جس سے اس کے وزن میں کمی آرہی۔ اس لیے سندھ حکومت یکم نومبر سے کرشنگ شروع کرے۔‘
کیا واقعی سندھ حکومت نے گنوں کی کرشنگ میں تاخیر کی ہے؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے سندھ میں واقع ڈگری شوگر ملز کے تکنیکی ڈائریکٹر اظہار پرویز سے بات کی کہ کیا واقعی اس بار سندھ حکومت کی جانب سے گنوں کی کاشت میں تاخیر کی گئی ہے اور کیا یہی بحران کی وجہ ہے؟
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’میں حیران ہوں کہ ابھی تک تو ملک میں کوئی شوگر مل نہیں چلی تو وزیر اعظم نے یہ کیسے کہہ دیا کہ سندھ میں تین شوگر ملز بند ہوگئیں اور کی وجہ سے بحران آیا ہے؟ مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہے لیکن اسے بڑا بنا کے پیش کیا جارہا ہے۔ سندھ میں چینی کی قلت نہیں ہے، صرف مصنوعی طور پر قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس سال سندھ میں بارشیں دیر سے ہوئی ہیں۔ گنے کی فصل پوری طرح سے نہیں پکی ہے۔ اسی لیے گنے کی کرشنگ بھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ مصنوعی طور پر قیمت بڑھانے کا نقصان یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چینی کی بڑھی ہوئی قیمت دیکھ کر فصل پکنے کے بعد زمین دار گنے کی فی من امدادی قیمت 200 سے 250 نہیں بلکہ 350 سے 400 روپے مانگیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر بارشیں وقت پر ہوجاتیں تو یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ اس وقت گنا گروتھ پر ہے اور پورہ طرح میچیور نہیں ہوا ہے۔ اگر ملیں اس وقت 300 سے 350 کے ریٹ پر بھی گنا خرید کر اپنی مل چلا لیں تو ہماری ریکوری اتنی نہیں ہوگی جتنی عام طور پر ہوتی ہے۔ گننے کی فصل کو پکنے میں 15 دن لگیں گے۔‘
معاشی تجزیہ کار سمیع اللہ کے مطابق ملک میں پورے سال کی چینی کی کھپت چھ سے ساڑھے ملین ٹن ہے۔ یعنی ہر ماہ کی کھپت تقریبا ساڑھے پانچ لاکھ ٹن ہے۔
انہوں نے اس ’مصنوعی بحران‘ کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’پہلی نومبر سے 15 نومبر تک کے درمیان جب کرشنگ شروع ہونے والی ہوتی ہے تو اس وقت چینی کے سٹاک بہت کم ہوتے ہیں۔ اس لیے مارکیٹ میں قیمتوں کی ہیرا پھیری بہت آسان ہوتی ہے۔ کچھ شوگر ملز کے مالکان نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر کچھ شوگر ملوں کے ساتھ مل کر چینی کو ذخیرہ کر لیا اور مارکیٹ میں اس کی قیمت بڑھا دی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مصنوعی طور پر چینی کا بحران پیدا کرنے والے افراد یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ 15 نومبر کو جب گنے کی کرشنگ شروع ہوگی تو چینی کی قیمت تقریبا 90 روپے فی کلو پر آجائے گی۔ وہ اس کرشنگ شروع ہونے سے پہلے کا وقت کا فائدہ اٹھا کر اور قیمیں بڑھا کر زیادہ منافع کمانا چاپتے ہیں۔ چینی کا ریٹ اس قدر زیادہ کردیا گیا ہے کہ کرشنگ کے فوری بعد ملنے والی چینی مہنگے داموں میں ملنا شروع ہوگی اور پھر کچھ وقت میں کم قیمت پر آجائے گی۔ یہ سب منافع کے لیے کیا گیا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تب تک لوگ اپنے گھروں میں موجود چینی کو کفایت شعاری سے استعمال کریں۔‘
سندھ حکومت کا کیا موقف ہے؟
وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ چینی بحران کی وجہ سندھ میں تین شوگر ملوں کا بند ہونا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے سندھ کے افسر برائے شگر کین ملوک چننا سے بات کی تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ ملیں تو پچھلے دس بارہ سالوں سے بند ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں اس وقت 38 شوگر ملیں ہیں، جن میں چھ ملیں کچھ تکنیکی خرابی کے باعث پچلے سال بھی نہیں چلیں۔ اس لیے پچھلے سال 32 شوگر ملوں کی جانب سے کرشنگ کی گئی تھی، تاہم اس سے کسی قسم کا بحران پیدا نہیں ہوا۔ اس بار امکان ہے کہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے 34 شوگر ملیں چلائی جائیں مگر یہ بھی تب ہی ممکن ہوگا جب گنے کی فصل مکمل طور پر تیار ہوگی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وزیر اعظم نے جن تین ملوں کے بند ہونے کا ذکر کیا ہے ان کی وجہ سے بحران پیدا ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ یہ ملز پچھلے دس سے بارہ سالوں سے بند ہیں۔‘
وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ حکومت کی بد انتظامی اور چینی کے افراط زر کو کئی مرتبہ جوڑا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے سندھ کے وزیر زراعت منظور وسان نے کا کہنا تھا کہ ’سندھ میں اس وقت کوئی چینی بحران نہیں ہے۔ سندھ کے پاس اس وقت 92 ہزار 767 اشاریہ 129 میٹرک ٹن چینی کا اسٹاک موجود ہے، جو کہ ایک سے ڈیڑھ ماہ تک کافی ہے۔ اصل میں وفاقی حکومت نے سر پلس کا بہانہ بناکرسستی چینی ایکسپورٹ کردی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں آئندہ ہفتے سے شوگر ملز چلنا شروع ہوجائیں گی۔ شوگر ملیں نہ چلانے والے ملز مالکان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔‘