وفاقی حکومت کی جانب سے درآمدی چینی کی قیمت کے 1.52 ارب روپے سے زائد کی رقم پنجاب ادا کرے گا کیونکہ وفاق نے پنجاب کو دو لاکھ میٹرک ٹن چینی میں سے ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن براہ راست کراچی کی بندرگاہ سے اٹھانے کا حکم دیا ہے۔
درآمد شدہ چینی پر مجموعی طور پر دی جانے والی سبسڈی وفاق، پنجاب اور کے پی کی حکومتوں کی طرف سے 4 ارب 35 کروڑ روپے ہو گی۔ تاہم پنجاب نے گنے کے اگلے کرشنگ سیزن کے آغاز پر مقامی طور پر تیار شدہ چینی کی دستیابی کی وجہ سے درآمد شدہ چینی کی کوئی مانگ نہیں دی تھی۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے پنجاب اور کے پی کو ہدایت جاری کی ہیں کہ درآمد شدہ چینی کو براہ راست بندرگاہ سے ڈیلرز کے نیٹ ورک کے ذریعے اٹھایا جائے۔ اس حوالے سے صوبے ڈیلرز کے ساتھ معاہدے کریں گے جیسا کہ انہوں نے درآمد شدہ چینی کی تقسیم کے لیے گزشتہ سال کیے تھے۔
متعلقہ حکام کے مطابق درآمدی چینی کا پہلا کنٹینر یوٹیلٹی سٹورز کو فراہم کیا گیا ہے جب کہ دوسرا پہنچ چکا اور وہ پنجاب کو ملے گا۔ کیونکہ ہمارے پاس اکتوبر کا سٹاک موجود جب کہ نومبر کے لیے درکار ہوگی اور اسی ماہ شوگر ملیں کرشنگ بھی شروع کر دیں گی۔
چینی کی قیمت 90 روپے فی کلو
درآمد شدہ چینی کی زمینی قیمت تقریبا 637.میٹرک ٹن امریکی ڈالر ہے۔ جس کا تخمینہ 109 روپے فی کلو تھا۔ 167 روپے ایک ڈالر چینی کی قیمت بشمول ڈیلرز کے مارجن کے درمیان فرق تقریبا 119 روپے ہے جو ایکسچینج ریٹ 167 روپے اور مارکیٹ میں چینی کی قیمت سبسڈی کا حصہ ہے، اور یہ سبسڈی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان طے شدہ کے فارمولے کے ساتھ تقسیم کی جائے گی۔
فارمولے کے تحت 50 فیصد وفاقی حکومت ، 35 فیصد پنجاب حکومت اور 15 فیصد کے پی کو ادا کرنا ہوں گے۔
حکومت پنجاب نے درآمد شدہ چینی کی کسی بھی مقدار کو لینے سے انکار کیا تھا کیونکہ صوبے کے پاس اگلے کرشنگ سیزن کے آغاز تک مقامی طور پر تیار شدہ چینی دستیاب ہے جو نومبر کے پہلے سے دوسرے ہفتے میں دستیاب ہونے والی ہے۔
محکمہ خوراک پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں چینی کا دستیاب ذخیرہ تقریبا 39لاکھ میٹرک ٹن شوگر ملوں کے پاس ہے۔
مزید یہ کہ 20 سے 25ہزارمیٹرک ٹن چینی کی مقدار مارکیٹ سپلائی چین میں موجود ہے۔ پنجاب میں چینی کی ماہانہ کھپت اڑھائی لاکھ میٹرک ٹن اور کے پی میں 50ہزار میٹرک ٹن ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول دستاویز میں انکشاف ہوا کہ وفاقی سیکرٹری برائے صنعت و پیداوار جواد رفیق ملک نے کہا کہ ’اب تک صوبوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بار بار یاد دہانی کے باوجود، صرف کے پی نے اپنے چھ ستمبر کے خط میں کہا ہے کہ ان کے پاس صرف 16 دن کی چینی باقی ہے۔
اس کے باوجود، سیکرٹری ایم او آئی پی نے صوبہ پنجاب کا واضح موقف پیش کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے ہدایت کی کہ ’چونکہ پنجاب چینی کی کمی والے صوبوں کے پی ، اے جے کے ، جی بی اور بلوچستان کو چینی فراہم کر رہا ہے اس لیے پنجاب کو ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چینی اٹھانی چاہیے۔‘
گزشتہ ماہ وزارت خزانہ میں اس حوالے سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں چینی کے سٹاک اور ضروریات پر بات نہیں کی گئی۔
اجلاس میں طے ہوا ہے کہ گھریلو صارفین کے لیے چینی کی درآمد کی حکومتی مداخلت کو کامیاب بنانے کے لیے حکمت عملی بنائی جائے تاکہ یہ چینی 90 روپے فی کلو کے حکومتی کنٹرول شدہ نرخوں پر فروخت کی جائے اور سستا بازار ، سہولت بازار ، اتوار بازار یا یوٹیلٹی سٹورز، میں اس مداخلت کی قیمت کا فرق برقرار رکھا جائے اور صرف گھریلو صارفین ہی فائدہ اٹھانے والے ہوں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق درآمد شدہ چینی کی درآمد مختلف اوقات میں 12 اکتوبر تک پانچ کھیپیں منگوائی جائیں گی تاکہ کرشنگ سیزن جو نومبر کے درمیان شروع ہوگا اس تک چینی کا بحران پیدا نہ ہو سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب میں چینی کی طلب اور رسد میں توازن برقرار رکھنے سے متعلق مقرر کین کمشنر زمان وٹو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں پنجاب واحد صوبہ ہے جو سب سے زیادہ 39 لاکھ میٹرک ٹن چینی سالانہ پیدا کرتا ہے۔ لیکن باقی صوبوں میں چینی کی پیداوار نہ ہونے پر پنجاب سے ہی انہیں بھی سپلائی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔‘
ان کے بقول ’پنجاب میں چینی کی سالانہ کھپت 30لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ ہمارے پاس ویسے تو ضرورت کے مطابق سٹاک موجود ہے لیکن نومبر کے 15 دن جب تک کرشنگ شروع نہیں ہوتی خدشہ تھا کہ چینی کی قلت نہ ہو جائے لہذا پنجاب درآمد شدہ چینی میں سے سب سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چینی خریدے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ضرورت کے مطابق چینی موجود ہے تو مزید خریداری کیوں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’پنجاب سے دوسرے صوبوں کو سپلائی کے پیش نظر یہاں کی ڈیمانڈ پوری کرنے میں مشکلات پیش آسکتی تھیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’درآمدی چینی عوام کو 90روپے کلو ہی دستیاب ہوگی کیونکہ اضافی قیمت وفاقی و صوبائی حکومتیں سبسڈی کی مد میں ادا کریں گی۔‘
زمان وٹو کے مطابق یہ تاثر درست نہیں کہ چینی پہلے سستے داموں برآمد کردی گئی اور اب مہنگی درآمد کی جارہی ہے۔ آبادی میں اضافے سمیت چینی کااستعمال بڑھنے سے طلب اور رسد میں فرق ضرور آیا ہے جو شاید آئندہ سال کور ہوجائے اور کوشش ہوگی کہ ملکی ضروریات کے حساب سے چینی سٹاک کی جائے۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے گنے کے کاشت کاروں کو گڑ اور شکر کی پیداوار کی اجازت مل گئی ہے۔ عدالت عالیہ نےکاشت کاروں پر خود گڑ اور شکر بنانے کی پابندی کا 73سال پرانا قانون کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت نےملز کو گنا فروخت کرنے کے لیے کاشت کار کو مجبور کرنے کا 1948 میں بنایا گیا قانون بھی کالعدم کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔