برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو ’ووٹ کے بدلے پیسوں‘ کی پیش کش کے الزامات کا سامنا ہے، اور ممکنہ طور پر اس بات کی تحقیقات ہو سکتی ہیں کہ آیا ان کی جماعت نے اپنے ہی ارکان پارلیمنٹ کو ’بلیک میل‘ کرنے کے لیے عوامی پیسے کا استعمال کیا۔
گذشتہ ہفتے دارالعوام کے بدعنوانی پر نظر رکھنے والے ادارے کے تنازعے کے دوران کنزرویٹو پارٹی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس کے وہپس آفس نے پچھلے بنچوں پر بیٹھنے والے ارکان کو خبر دار کیا تھا کہ اگر انہوں نے حکومت کے حق میں ووٹ نہ دیا تو ان کے حلقے انتخاب فنڈ سے محروم ہو جائیں گے۔ اب کابینہ سیکرٹری سائمن کیس پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کریں جن کے تحت حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا سرکاری فنڈ کے غلط استعمال کے مترادف ہو گا۔
وزیر اعظم کے ترجمان سے جمعے کو جب ان اطلاعات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے تردید نہیں کی۔
لبرل ڈیموکریٹ رہنما ایڈ ڈیوی نے سائمن کیس کو خط لکھ کر کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ’پورے برطانیہ میں عوام کے لیے ضروری سرمایہ کاری کو روکنے کی مسلسل دھمکیاں دے رہی تاکہ پچھلے بنچوں پر بیٹھنے والوں کو مخصوص انداز میں ووٹ دینے کے لیے بلیک میل کیا جا سکے۔‘
سر ایڈ کا کہنا تھا کہ سرکاری تحقیقات کی ’فوری طور پر ضرورت ہے تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ آیا حکومت نے اپنے رکن پارلیمنٹ کو بچانے کے لیے عوامی پیسے تو استعمال نہیں کیا۔‘
انہوں نے کہا: ’ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ مقامی برادریوں کو ان کے ضروری فنڈ سے اس لیے محروم کر کے صرف اس لیے سزا دی جائے کہ ان کے ارکان پارلیمنٹ نے ناقابل دفاع امر کے دفاع سے انکار کر دیا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ وزیر اعظم کو شرمندگی سے بچانے کی خاطر خاندانوں اور کاروباروں کو سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کرتے ہوئے ’پیسے کے بدلے ووٹس‘ کا نیا سکینڈل ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’بورس جانسن صورت حال کو بہتر بنانے کا وعدہ کرتے رہتے ہیں لیکن اس کی بجائے وہ ہماری سیاست کو نئی پستی میں لے جا رہے ہیں۔‘
حکومت کو اس لیے بھی تنقید کا سامنا ہے کہ اس سے قبل انکشاف ہو چکا ہے کہ 4.8 ارب پاؤنڈ کے حکومتی’ترقیاتی فنڈز‘ کنزرویٹو پارٹی کے ووٹوں والے علاقوں کو دیے گئے، اور غربت اور محرومی والے علاقوں کو نظر انداز کیا گیا۔
ارکان پارلیمنٹ کو مبینہ طور پر دھمکی دے کر حمایت کا ووٹ اس ضمن میں لیا گیا کہ آیا دارالعوام کے بدعنوانی پر نظر رکھنے والا ادارہ ختم کر کے اس کی جگہ ایوان کی اپنی کمیٹی قائم کر دی جائے جس میں کنزرویٹو ارکان کی اکثریت ہو۔
حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ آیا ٹوری رکن پارلیمنٹ اووین پیٹرسن کو قواعد کی خلاف ورزی پر کسی قسم کے نتائج کا سامنا کرنا چاہیے یا نہیں۔ رکن پارلیمنٹ کو ان کمپنیوں کے لیے لابنگ میں لابنگ کے قواعد کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تھا جنہوں نے انہیں ہزاروں پاؤنڈ ادا کیے۔ رکن پارلیمنٹ مستعفی ہو گئے تھے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ کابینہ سیکرٹری گذشتہ ہفتے کی گئی ٹوری پارٹی کے وہپ آفس کی کارروائی کے بارے میں سر ایڈ کے خط کا مناسب وقت پر جواب دیں گے۔ سائمن کیس کو ستمبر 2020 میں کابینہ سیکرٹری مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ وزیر اعظم بورس جانسن کے ڈاؤننگ سٹریٹ آفس میں مستقل سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
حکومتی ترجمان کے بقول :’جیسا کہ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے معاوضہ لے کر لابنگ کرنا قطعی طور پر غلط ہے۔ تمام منتخب عہدے داروں کو لازمی طور پر قواعد کی پابندی کرنی ہو گی جیسا کہ عوام کو توقع کرنے کا حق ہے۔‘
جانسن اس ہفتے کہہ چکے ہیں کہ وہ لوگ جو ’معاوضہ لے کر لابنگ‘ میں ملوث پائے گئے ہیں، انہیں معافی مانگنی اور ضروری جرمانے ادا کرنے چاہییں۔‘
© The Independent