گلاسگو: سکاٹ لینڈ کے شہر میں جاری اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں ایک طرف تو مختلف ممالک کے سربراہان، وزرا، مشیران اور سیکریٹریز دنیا کو ماحولیاتی اثرات سے بچانے کے لیے بلندو بانگ دعوے کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب دنیا بھر سے آئے ہوئے ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنان سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں کے ذریعے ان تمام دعوؤں کو مسترد کر رہے ہیں۔
اس تضاد کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت میں ان فیصلوں کوعملی جامہ پہنانا امیر اور بڑے ممالک کے لیے ناممکن ہے۔
کانفرنس میں مباحثوں اور ماحولیاتی تبدیلی کی رپورٹوں میں حد سے زیادہ لفاظی کے استعمال نے ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنجیدہ مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
31 اکتوبرکو شروع ہونے والی یہ کانفرنس 12 نومبر کو اختتام پذیر ہوگی لیکن کانفرنس آف دی پارٹیز (کوپ 26) کی گذشتہ روایات کے مطابق یہ کبھی بھی وقت پر ختم نہیں ہوتی۔ سکاٹش ایونٹ کیمپس میں جاری اس بڑی کانفرنس کو گذشتہ سال ہونا تھا لیکن کووڈ وبا کے بڑھتے کیسز اور اموات کی وجہ سے انتظامیہ کو اسے موخر کرنا پڑا، اب جبکہ پوری دنیا میں میڈیا کی توجہ کانفرنس پر ہے تو جانتے ہیں کہ گلاسگو میں کیا ہو رہا ہے۔
کانفرنس کے باہر کیا ہو رہا ہے؟
گلاسگو کی سرد ہواؤں اور بارش کے باوجود بھی ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کیا۔ جمعے اور ہفتے کو بڑے مارچ ریکارڈ کیے گئے جس میں بچوں، بڑوں، بوڑھوں اور سائنسدانوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی۔ مرکزی احتجاجی ریلی میں باہر سے آنے والوں کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ گلاسگو کا روایتی میوزک بینڈ تھا، جس میں تمام ارکان زرد اور سرخ ثقافتی یونیفارم زیب تن کیے سکاٹش دھنوں سے مظاہرین کا لہو گرما رہے تھے۔ ریلی کے مختلف پوائنٹس پر میوزک کانسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے لوگوں اور میڈیا کی توجہ کے لیے نعرے لکھے تھے، جن کا متن تھا: ’ہم موسمیاتی انصاف چاہتے ہیں، ہم نے دنیا کو بچانا ہے، ابھی نہیں تو کبھی نہیں، اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس گذشتہ کانفرنسوں کی طرح سکاٹ لینڈ میں بھی ناکام ہو چکی ہے۔‘
کانفرنس میں جانے کے لیے شرائط
کانفرنس میں جانے کے لیے ویکسینیٹڈ ہونا لازمی ہے اور اندر داخلے سے پہلے تمام شرکا کا کرونا رپیڈ ٹیسٹ منفی ہونا لازمی ہے۔ پی سی آر اور رپیڈ ٹیسٹ کے لیے کٹس برطانوی حکومت مفت فراہم کرتی ہے جبکہ دونوں ٹیسٹ خود ہی کرنا اور پھررپورٹ کو برطانوی محکمہ صحت کی ویب سائٹ پر خود ہی اپ لوڈ کرنا پڑتا ہے۔ منفی رزلٹ آنے پر آپ کو تصدیقی پیغام یا ای میل بھیج دی جاتی ہے اور پھر اسی ای میل کو گیٹ پر دیکھنا لازمی ہے۔ کرونا رزلٹ مثبت آنے پر شرکا کے لیے حکومتی سینٹر میں قرنطینہ ہونا لازمی ہے۔
سکاٹش ایونٹ کیمپس کے اندر کیا ہو رہا ہے؟
کانفرنس میں 30 ہزار سے زائد لوگ رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ اس عالمی ایونٹ کو لوگوں کی آسانی کے لیے آٹھ زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اے زون میں سکیورٹی کلیئرنس کے بعد شرکا ایونٹ میں داخل ہوتے ہی پہلے اپنا ایکریڈیشن کارڈ وصول کرتے ہیں، جس کے حصول کے لیے آپ کے پاس اقوام متحدہ کا ایکریڈیشن لیٹر ہونا ضروری ہے۔ کارڈ حاصل کرنے کے بعد آپ کو استقبالیہ میں ماسک، پانی کی بوتل اور ہینڈ سینیاٹائزر دیا جاتا ہے جس کے بعد آپ لمبے کورویڈو میں پیدل چلتے ہوئے مین ایونٹ میں داخل ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی زون میں ایونٹ کے ٹی وی سٹوڈیو، ریسٹورنٹس، کمپیوٹرسینٹراور دیگر سرگرمیاں جاری رہتی ہے۔ سی میں کانفرنس کے سائیڈ ایونٹس ہوتے ہیں۔ ہر زون کو الگ الگ رنگ دئیے گئے ہیں۔ ڈی، بلیو زون ہے جہاں کانفرنس اور مختلف ممالک کے پویلین قائم ہیں۔ یہاں پر زیادہ رش رہتا ہے اور لوگ یہاں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ مختلف ممالک کے وفود موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع اور ماحول دوست منصوبوں کی تشہیرکے لیے آن لائن ویبنارمیں دنیا بھر میں ناظرین سے لائیو مخاطب ہوتے ہیں جبکہ مین کانفرنس ہال میں پریس کانفرنسز ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ وفود اور ماہرین میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کانفرنس میں نظم وضبط اورشرکت کرنے کے لیے 32 سے زائد شعبے ہیں اور ہر ایک میں درجنوں ذیلی شعبے بنائے گئے ہیں۔ کانفرنس کے تمام شرکا کو کارڈ دیا جاتا ہے، جس میں وہ سکاٹ لینڈ کی تمام بسوں، میٹرو اور ٹرین میں مفت سفر کرسکتے ہیں۔
کانفرنس میں پاکستان کیا کردار ادا کر رہا ہے؟
پاکستان کا پویلین بھی دیگر ممالک کے ساتھ بلیو زون میں واقع ہے۔ پاکستانی وفد کی قیادت وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کررہے ہیں جبکہ وزیر مملکت زرتاج گل، سینیٹر فیصل جاوید، وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اہلکار اور نیویارک سے آئے ہوئے پاکستانی سفارت کار بھی شامل ہیں۔ پاکستانی وفد کے ممبران بھی مختلف مباحثوں میں شرکت کر رہے ہیں اور بلین ٹری سونامی منصوبے کا پرچار کر رہے ہیں۔
کانفرنس کی قرارداد
کانفرنس کے لیے آئے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2015 میں پیرس میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں رکن ممالک نے ایک معاہدہ کیا تھا جوکہ ایک بہترین لفاظی سے بھرپور افسانہ تھا اور گذشتہ پانچ سالوں سے اقوام متحدہ اور دیگر امیر ممالک اس افسانے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ پیرس معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ تمام رکن ممالک 2050 تک عالمی درجہ میں اضافے کو ایک اعشاریہ پانچ تک محدود رکھیں گے اور کاربن کے اخراج میں بھی کمی کریں گے۔
مگر یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ، برطانیہ، چین اور دیگر طاقتور ممالک توانائی کے حصول اور کارخانے چلانے کے لیے ہی سب سے زیادہ کاربن کا اخراج کر رہے ہیں۔ کانفرنس میں گرما گرم مباحثے جاری ہیں اور 12 نومبر کو اختتام پر ایک قرارداد پیش کی جائی گی۔ دنیا کی نظریں اس قرارداد پر ہیں جس میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔