فکرِ اقبال: 10سوالات

یوم اقبال ہم عقیدت و احترام سے منا چکے، کیوں نہ اب چند سوالات پر غور فرما لیا جائے؟

12  اگست 2004 کی اس تصویر میں کراچی میں پاکستان کے جھنڈے فروخت کرتا ایک بچہ (اے ایف پی فائل)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے

 

جس طرح قائد اعظم ہماری سیاسی وحدت کی علامت ہیں اسی طرح اقبال ہماری فکری وحدت کی علامت ہیں اور ان دونوں علامتوں سے شعوری وابستگی ضروری ہے۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ میری کم مائیگی مجھے فکر اقبال تک رسائی نہیں دے رہی اور اپنی کم علمی کی وجہ سے میں راستے میں ہی سوالات میں الجھ کر رہ جاتا ہوں۔

ایسے ہی کچھ سوالات میں اہل علم ، سماج اور قارئین کے سامنے رکھ رہا ہوں اور رہنمائی کا طالب ہوں۔

پاکستان کی شناخت کے دو حوالے ہیں۔ ایک اسلام اور دوسرا جمہوریت۔ اپنے خطبات میں علامہ اقبال جمہوریت کے تصور کی تحسین کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جمہوریت ایک عام آدمی کو سامنے لاتی ہے اور یہی مطلوب ہوتا ہے۔ لیکن ان کی شاعری میں جمہوریت سے دور رہنے کا مشورہ ملتا ہے اور وہ کہتے ہیں:

گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کار شو
کہ از مغزدو صد خر فکر انسانی نمے آید

(جمہوریت سے دور رہو اور کسی پختہ فکر انسان کو رہبر بنائو کیوں کہ دو سو گدھوں کی عقل مل کر بھی انسان کی عقل کا مقابلہ نہیں کر سکتی)

اردو میں ان کا ایک شعر تو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے:

جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اقبال کے ایک مداح کی فکری کم مائیگی سے لپٹا پہلا سوال گویا یہ ہے کہ اب اسے جمہوریت سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے یا اس سے گریز کرنا چاہیے؟

پاکستان کی شناخت کا ایک حوالہ اسلام ہے۔ پاکستان کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔ لیکن اقبال تو وطنیت کے تصور ہی کے خلاف تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

 یہ بحث بھی ہم فہم اقبال کے باب میں پڑھ چکے کہ قومیں وطنوں سے نہیں بنتیں۔

معاملہ یہ ہے کہ پاکستان بھی تو ایک وطن ہے اور اس کا خواب بھی خود اقبال نے دیکھا تھا۔ پاکستان سے محبت یقینا شرک نہیں، بلکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔

یہ تقاضا کیا یہ بتا رہا ہے کہ قومیں وطنوں ہی سے بنتی ہیں اور وطن کا پیرہن مذہب کا کفن نہیں ہے بلکہ وطن  میں نعرہ لگتا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا  تو جواب آتا ہے لا الہ الا اللہ۔

دوسرا سوال یہ ہوا کہ اقبال کے ہاں بظاہر ان دو مختلف تصورات میں تطبیق کیسے کی جائے؟

تیسرے سوال کا تعلق اقبال کے ہاں نیشن سٹیٹ اور امت کے تصور سے ہے۔ امت اور نیشن سٹیٹ کا یہ سوال آج  پاکستان میں ہمیں عملی طور پر بھی درپیش ہے۔ شاعری میں اقبال کہتے ہیں: ’ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘۔ لیکن خطبات میں وہ نیشن سٹیٹ کے تصور کے قریب ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ اب مسلمان ممالک اپنی الگ الگ حیثیت میں پختہ اور طاقتور ہوں اور پھر یہ ممالک لیگ آف نیشن کی طرح کوئی اتحاد بنا لیں۔

او آئی سی کا قیام اقبال کی اسی فکر کی عملی شکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ فکر اقبال میں امت اور نیشن سٹیٹ کا دائرہ کار کیا ہے اور کیا ہم اس سے کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں؟

چوتھا سوال اقبال اور خلافت عثمانیہ کے بارے میں ہے۔ شاعری میں اقبال کہتے ہیں: چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا۔ لیکن اپنی نثر میں وہ اس چاک قبا کے بارے میں بالکل اور رائے دیتے پائے جاتے ہیں۔ ایک طالب علم کو مزید حیرت اس وقت ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ برصغیر میں تحریک خلاف چلائی گئی اور گاندھی تک اس میں شریک ہوئے لیکن اقبال اس تحریک خلافت سے لاتعلق رہے اور انہوں نے اس میں کسی بھی حیثیت میں حصہ نہیں لیا۔

ایسا کیوں ہوا؟ اور اقبال کی رائے کیا تھی؟ وہ موقف  اگر سامنے آ جائے تو نہ صرف  ہم طالب علموں کو رہنمائی میسر ہو گی بلکہ وہ ہمارے شعوری سفر کا زاد راہ  بھی ہو سکتا ہے۔

 پانچویں سوال کا تعلق اقبال کے تصور اجتہاد سے ہے۔اقبال اجتہاد کے قائل تھے اور اس کے مداح بھی۔ خطبات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے ہاں اجتہاد کا غیر معمولی مقام تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ فقہ حنفی پر قائم رہنا؟

کیا اجتہاد کے بارے میں اقبال کی رائے بدل گئی تھی یا اپنے فرزند کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ اجتہاد کے قابل نہیں اور اسے اجتہاد سے دور رہنا چاہیے؟ یا پھر ایسا ہوا  ہو کہ اقبال نے اپنے فکری اجتہاد سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا  ہوکہ فقہ حنفی پر قائم رہنا چاہیے؟ اس صورت میں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال خود تو اجتہاد کر رہے تھے پھر اپنے بیٹے کے حق اجتہادکی نفی کیوں کی؟

چھٹا سوال اقبال اور تصوف سے جڑا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں اقبال تصوف کے ناقد ہیں اور وہ اسے  اسلام کی ز مین پر اجنبی پودا قرار دیتے ہیں لیکن دوسری جانب رومی کو وہ پیر قرار دیتے ہیں۔ تصوف وجودی کی تاویل کے باوجود ایک طالب علم کی تشنگی برقرار ہے کہ کوئی صاحب علم اس گتھی کو سلجھائے اور رہنمائی فرمائے کہ یہ کیا معاملہ تھا۔

ساتواں سوال اقبال اور مغرب سے متعلق ہے۔  جاوید اقبال صاحب نے والد گرامی کو خط لکھا اورفرمائش کی کہ لندن سے ان کے لیے گرامو فون لیتے آئیں۔ اقبال نے جواب میں گراموفون لانے کی بجائے یہ مشورہ دیا:

اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انہی شیشہ گران فرنگ کے ہاں انہی جاوید اقبال صاحب کو پڑھنے کے لیے بھیجا۔ خود بھی جناب اقبال نے ’شراب ِ علم کی لذت‘ کے لیے مسلم دنیا کی بجائے یورپ کا سفر کیا۔ کیمبرج سے بی اے اور جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اقبال کچھ اور کہنا چاہتے تھے اور ہماری کم علمی اس کی تفہیم سے قاصر ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ تفہیم کیسے ممکن ہو؟

آٹھویں سوال کا تعلق فکر اقبال اور ہماری نفسیاتی گرہ سے ہے۔ اقبال نے کہا تھا: مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی اور یہ کہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا۔ ہم نے ان شعروں کو اپنی بے عملی کی سند بنا لیا۔ حالانکہ مومن بے تیغ نہیں لڑتا، اسے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقبال کہنا کیا چاہ رہے تھے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا درست فہم اقبال سے ہم اپنی گرہیں کھول سکتے ہیں؟ یا اقبال سے ہمارا تعلق بس اتنا ہی ہے کہ مرضی کا شعر اٹھا کر مرضی کے معنی پہنا دیے جائیں؟

نواں سوال اقبال کے تصور جنت اور دوزخ کے بارے میں ہے۔ اقبال کے خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں جنت اور دوزخ مقامات کا نام نہیں بلکہ صرف کیفیات ہیں۔ امت کے اجتماعی فہم میں مگر انہیں مقامات ہی سمجھا گیا ہے۔ میرے جیسے اقبال کے مداح کی ہتھیلی پر یہ سوال رکھا ہے کہ اس کی تطبیق کیسے ہو؟

دسویں اور آخری سوال کا تعلق ہمارے عمومی فہم اقبال سے ہے۔ اتنے بڑے آدمی کو ہم نے صرف شاعری تک محدود کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا اقبال کی نثر ہمارے لیے اجنبی ہو گئی۔ علم و فکر کے ذخیرے سے ہم محروم ہو گئے۔شاعری کا عالم یہ ہے کہ اقبال کے 12 ہزار میں سے سات ہزار شعر فارسی میں ہیں اور فارسی ہمیں آتی ہی نہیں۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہی فارسی میں تھا۔ زبور عجم ، رموز بے خودی ، پیام مشرق ، اسرار خودی جیسی کتابیں ہم پڑھ ہی نہیں سکتے۔

اردو شاعری میں ہماری مبلغ تفہیم یہ ہے کہ احسن اقبال سے جام کمال تک اور جام کمال سے قائم علی شاہ تک اقبال کے شعر غلط پڑھتے ہیں اور جانے کس کس کا شعر اقبال سے منسوب کر دیتے ہیں۔اہل سیاست ہی نہیں ، یہاں  ایچ ای سی اور نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے اداروں کے مشترکہ پروگرام میں عجیب و غریب شعر اقبال سے منسوب کر کے آویزاں کر دیے جاتے ہیں۔

یہ پست فکری کی انتہا ہے ورنہ اقبال کا شعر بہار کی طرح آپ اپنا تعارف ہے اور بندے میں ذرا سا بھی ذوق ہو تو پڑھتے ہی معلوم ہو جاتا ہے یہ شعر اقبال کا ہے۔

آخری سوال گویا یہ ہوا کہ اس بد ذوقی اور اس محرومی کے عالم میں کیا ہم فکر اقبال سے آگہی کا دعوی کر سکتے ہیں؟

----

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر